Maktaba Wahhabi

118 - 779
کرتے ہیں اس حدیث کی اگر ایک آدمی سے بھی نقل منقول ہو تو اس کی صحت ثابت کرو ۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایمان کا رکن اس جیسی حدیث سے ثابت کیا جائے جس کے نقل کرنے والے کو کوئی نہ جانتا ہو۔ اوراگر اس کا ناقل معلوم بھی ہوجائے تو پھر بھی اس سے غلطی اور جھوٹ کا امکان رہتا ہے ۔ کیا کسی معقول علمی طریقہ کے بغیر بھی ایمان کا کوئی رکن ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس حدیث میں امامت پر دلیل نہیں : ساتویں وجہ : ان سے کہا جائے گا : اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام پر مبنی ہے ۔ تو پھر بھی ان لوگوں کے لیے اس حدیث میں کوئی حجت نہیں ہے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سارے امور کے متعلق یہ جملہ ارشاد فرمایاہے :’’من مات میتۃ الجاہلیۃ‘‘ ’’ تووہ جاہلیت کی موت مرے گا ۔‘‘ یہ ایسے امور کے متعلق ہے جو ایمان کا رکن نہیں اور جن کے ترک کرنے سے کوئی کافر نہیں ہوتا۔ صحیح مسلم میں حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من قتِل تحت رایۃ عِمِیّۃ یدعو عصبِیۃ، أو ینصر عصبِیۃ، فقِتلتہ جاہِلِیۃ۔‘‘[1] یہ کلام تعصب کی بنا پر لڑنے والوں کو بھی شامل ہے ۔اور شیعہ بنا بر تعصب لڑنے والوں میں سر فہرست ہیں ۔البتہ طرف داری کے نقطہ خیال سے لڑنے والے مسلمانوں کی تکفیر نہیں کی جا سکتی۔ جیسا کہ کتاب و سنت اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ تو پھر جس انسان کا جرم اس سے کم تر ہو ‘ اسے کیسے کافر قرار دیا جاسکتا ہے ؟ اگر وہ اطاعت امام سے نکل جائے اور جاہلیت کی موت مرے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔[2] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’جو شخص اطاعت امام سے خروج اختیار کرے اور جماعت کو ترک کر کے مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘[3]
Flag Counter