دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ممکنات کا کو ئی ایک پیدا کرنے والا ہے؛ جو ان سے خارج اور واجب بنفسہ ہے۔ نظر بریں خالق و مبدع کا مستلزم صفات ہونا؛یایہ کہ وہ صفات کمال سے خالی نہیں ہوتا؛تو اس سے کسی حجت کی نفی نہیں کرتا، اور ظاہر ہے کہ اس تلازم کو فقر و احتیاج سے تعبیر نہیں کر سکتے۔بھلے اسے فقرو احتیاج کا نام دیا جائے یا نہیں ۔ پس جس چیز کے مجموعہ سے واجب قدیم اور ازلی ہونے کی نفی کی جاتی ہے وہ کسی طرح بھی عدم کو قبول نہیں کرتی۔
صفات قائمہ بالموصوف اس کا جزء نہیں :
[[مزید برآں صفات قائمہ بالموصوف کو جزء قرار دینا معروف لغت کے خلاف ہے۔یہ صرف فلاسفہ کی وضع کردہ اصطلاح ہے۔جیساکہ وہ موصوف کو مرکب بھی کہتے ہیں ۔بخلاف جزء کو صفت کا نام دینے کے۔بلا شبہ یہ اصطلاح بہت سے ائمہ اور نظار کے کلام میں پائی جاتی ہے؛ جیسے امام احمد اور ابن کلاب اور دیگر۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ذات صفات کو مستلزم ہوتی ہے؛ اورصفات سے متصف ہونے کے بغیر کوئی ذات نہیں پائی جاتی ۔ یہ بات تو حق ہے۔ اور اگر ان کی ایجاد کردہ اصطلاحات کی طرف تنزل اختیار کیا جائے؛ اور اس کو جزء کو نام دیا جائے؛ تو پھر بھی مجموع اس وقت تک نہیں پایا جاتا جب تک اس کے وہ اجزاء نہ پائے جائیں جو اس کا حصہ شمار ہوتے ہیں ۔
اور اگریہ کہا جائے کہ وہ اپنے بعض اجزاء کا محتاج ہے؛ تو یہ بھی اسی قول کے قائل کی طرح ہوگاجوکہتا ہے:’’ وہ اپنی ذات کی طرف محتاج ہے؛ جو کہ اصل میں اس مجموعہ سے عبارت ہے۔ اگر ایسا کہنے میں کوئی ممنوع بات نہیں ؛ تو پھر یہ قول اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس پر اعتراض نہ کیا جائے۔
اور اگر یہ کہا جائے کہ اس کا جزء اس کا غیر ہوتا ہے؛ جب کہ واجب اپنے غیر کا محتاج نہیں ہوتا۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: اگر اس سے تمہاری مراد یہ ہے کہ بیشک اس کے اجزاء اس سے مبائین ہوتے ہیں ؛ اور کسی بھی اعتبار سے ان میں سے کسی ایک کا دوسرے سے جدا ہونا جائز ہے۔ تو پھر یہ باطل ہے۔اس تفسیر کے اعتبار سے اس کے اجزاء اس کا غیر نہیں ہیں ۔ اور اگر آپ کی مراد یہ ہو کہ ایسا ممکن ہے کہ ان میں سے کسی ایک کے علم کے بغیر دوسرے کا علم حاصل ہو جائے؛ جیسا کہ بیشک ہم اس کے قادر ہونے کو اس کے عالم ہونے سے پہلے جانتے ہیں ۔اور ہم اس کی ذات کو اس کی صفات سے پہلے جانتے ہیں ۔ اگر غیر اس تفسیر کے اعتبار سے ؛ تو پھر صریح عقل کی روشنی میں معلوم ہے کہ ایسی معانی کو ثابت ماننا ضروری ہے جو اس تفسیر کی روشنی میں غیر ہوں ۔ وگرنہ اس کا بذات خود قائم ہونا وہ نہیں ہے؛ جو اس کا عالم ہونا ہے۔ اور اس کا عالم ہونا ؛ وہ نہیں ہے جو اس کا زندہ [حیی] ہونا ہے۔ اور اس کا زندہ ہونا وہ نہیں ہے جو اس کا قادر ہونا ہے۔اور جو کوئی ان صفات کو ایک ہی چیز قرار دیتا ہے؛ اور کہتا ہے کہ یہ تمام صفات موصوف ہی ہیں ؛ تو یقیناً وہ فلاسفہ کی دھوکہ بازی میں مکمل طورپھنس گیا۔یہ تو بالکل ویسے ہی ہے جو کہتا ہو: جو کالا ہے؛ وہی سفید ہے؛ او رجو سفید ہے وہی کالا ہے۔ اور سفیدی اورسیاہی وہی
|