یہ واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ زمین وآسمان کی پیدائش سے پہلے موجود تھا۔ پھر جب اس نے ان دونوں کو بنایا تو یاوہ خود ان میں داخل ہوگیا ہوگا یا یہ دونوں اس میں داخل ہوگئے ہوں گے۔ دونوں باتیں ہی ناممکن ہیں ۔ لہٰذا متعین ہوگیا کہ وہ ان دونوں سے جدا ہے۔ انہوں نے یہ بات اس لیے تسلیم کی کیونکہ لازم ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو چھوڑ دے یا اس کے معاملات میں مداخلت کرے۔
نفاۃ ایسے وجود کے موجود ہونے کے مدعی ہیں جو غیر سے جدا ہے اور نہ اس میں شامل ہے۔ عقلی اعتبار سے یہ بالکل ناممکن ہے۔ لیکن ان کا دعوی ہے کہ اس کے ناممکن ہونے کا قول وہمی حکم ہے، عقلی حکم نہیں ۔ پھر ان کا آپس میں تضاد ہے۔ کہتے ہیں : اگر اللہ تعالیٰ عرش سے اوپر ہوتا تو جسم ہوتا۔ کیونکہ لازم ہے کہ جو چیز اس جانب سے ملی ہے، وہ اس جانب سے ملی ہوئی چیز سے ممتاز ہو۔
جوابا اہل اثبات ان سے کہتے ہیں کہ یہ بات تو عقلی طورپر لازماً معلوم شدہ ہے کہ کسی عالم سے اوپر کسی موجود کا اثبات ، جوکہ جسم نہیں ہے، عقل کے زیادہ قریب ہے ایسے بذاتِ خود قائم موجود کے جو عالم سے جدا ہے اور نہ اس میں شامل ہے۔ اگر دوسری چیز کا اثبات جائز ہے تو پہلی کا اثبات تو اولی ہے۔
اگر تم کہتے ہو کہ دوسری چیز کی نفی باطل وہمی حکم ہے ۔
تو تم سے کہا جائے گا کہ پہلی چیز کی نفی زیادہ لائق ہے کہ باطل وہمی حکم ہو۔
اگر تم کہتے ہو کہ پہلی چیز کی نفی مقبول عقلی حکم ہے تو دوسری کی نفی زیادہ لائق ہے کہ مقبول عقلی حکم ہو۔ ان امور کی وضاحت دیگر مقامات پر تفصیل سے موجود ہے۔ یہاں صرف تنبیہ مقصود تھی۔
لفظ جہت پر بحث:
اسی طرح لفظ جہت کے بارے میں گفتگو ہے۔ کیونکہ لفظ جہت کے مسمی سے مراد وجودی امر بھی ہوتا ہے مثلا: بلند سیارے اور اسی طرح اس سے معدوم چیز بھی مراد ہوتی ہے مثلا: عالم سے باہر ۔
جب دوسرا معنی مراد ہوتو یہ کہنا ممکن ہے کہ ہر جسم ایک جہت میں ہوتا ہے۔ اور جب پہلا معنی مراد ہو تو ہر جسم کا دوسرے جسم میں ہونا ناممکن ہوتا ہے۔تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ باری تعالی ایک جہت میں ہے اور جہت سے اس کی مراد ایک وجودی چیز ہوتی ہے ۔ جبکہ اس کے سوا ہر چیز اس کی مخلوق ہے ۔ تو جو شخص اس معنی کے اعتبار سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک جہت میں ہے تو وہ غلطی کا مرتکب ہے۔
اگر وہ جہت سے معدوم چیز مراد لے یعنی عالم سے اوپر جو کچھ ہے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ عالم سے اوپر ہے ۔ تو اس نے بالکل ٹھیک کہا۔ عالم سے اوپر اس کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ موجودات میں سے کسی چیز میں نہیں ہے۔
|