﴿وَ مَنْ یُّوَلِّھِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہٗٓ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَۃٍ ﴾ (الانفال :۱۶)
’’اور جو کوئی اس دن ان سے اپنی پیٹھ پھیرے، ماسوائے اس کے جو لڑائی کے لیے پینترا بدلنے والا ہو، یا کسی جماعت کی طرف جگہ لینے والا ہو....۔‘‘
متحیز لازماً وہ چیز ہے جس پر کسی وجودی چیزنے احاطہ کر رکھا ہو۔ چونکہ مخلوقات میں سے کوئی چیز ذات باری کا احاطہ نہیں کر سکتی، لہٰذا لغوی اعتبار سے اللہ تعالیٰ کو متحیز نہیں کہہ سکتے۔
متکلمین کی اصطلاح میں متحیزعام ہے۔ وہ ہر جسم کو متحیزکہتے ہیں : اور جسم ان کی اصطلاح میں وہ ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ بنا بریں ان کے نزدیک زمین و آسمان اور ان کے درمیان جو کچھ ہے وہ متحیز ہے۔ مگر لغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اور کبھی وہ حیّز سے معنی موجود مراد ہیں اورکبھی امر معدوم مراد لیتے ہیں ۔اور وہ حیز کے مسمی اور مکان کے مسمی میں فرق کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں :مکان سے امر وجودی مرادہے۔اور حیزسے مراد مکان کی تقدیم ہے۔ لہٰذا جملہ اجسام جو کسی موجود چیز میں واقع نہیں ، وہ کسی مکان میں نہیں ،یہ ان کے نزدیک حیزہ ہے۔اور ان میں سے کچھ اس کے متناقض بھی ہیں ۔ وہ کبھی حیز کو معدوم قرار دیتے ہیں اور کبھی موجود۔ امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ حیّز کو کبھی موجود قرار دیتے تھے اور کبھی معدوم۔ دوسری جگہ ہم تفصیل سے کلام کر چکے ہیں ۔
چنانچہ جو شخص بھی فلسفیوں کی اصطلاح کے مطابق گفتگوکرے اور کہے کہ اللہ تعالیٰ متحیز ہے یعنی موجودات میں سے کسی چیز نے اس کا احاطہ کیا ہوا ہے تو وہ خطا کار ہے۔ کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے ۔ اور خالق ومخلوق کے سوا کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ تو جب خالق مخلوق سے جدا ہے تو ناممکن ہے کہ خالق مخلوق میں ہو اور یہ بھی ناممکن ہے کہ وہ اس اعتبار سے متحیز ہو۔اگر حیِز[جگہ] سے مراد کوئی معدوم چیز ہے تو معدوم چیز تو کچھ نہیں ہے۔ جبکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ جب کسی نے عالم سے اوپر عدم کو حیز کا نام دیا اور کہا: یہ ناممکن ہے کہ وہ عالم کے اوپر ہو تاکہ وہ متحیز نہ ہو، تو یہ باطل معنی ہے کیونکہ وہاں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی موجود نہیں ہے کہ جو اس میں شامل ہو۔ اور یہ بات عقلی اور شرعی طور پر معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے۔ جیسا کہ کسی اور جگہ یہ بات تفصیل سے بیان ہوچکی ہے۔
انہی باتوں کو سلف صالحین اور ائمہ کرام نے جہمیہ کے خلاف دلیل بنایا تھا۔ جیسا کہ امام احمد، عبد العزیز کنانی[1]، عبد اللہ بن سعید بن کلاب اور حارث محاسبی وغیرہ نے جہمیہ کے خلاف اسے دلیل بنایا تھا۔ انہوں نے
|