جس کا ماہیاتِ مختلفہ میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ اختصاص نہ ہو تو پھر دو ماہیتوں میں سے ایک کا وجود کے ساتھ اختصاص بغیر دوسرے کے ناقابل فہم ہے اور یہ بات تو بداہۃً معلوم ہے کہ جب فاعل کرنے سے پہلے اس چیز کا تصور کرتا ہے جس کے کرنے کا ارادہ ہو تو یہ ضروری ہے کہ کوئی ایسا سبب پایا جائے جو اس فعل کے ساتھ اس کے ارادے کے تخصیص کو ثابت کرتا ہو اور بندے کے ارادے کے لیے تو ایسے اسبابِ خارجیہ کا پایا جانا ضروری ہے جو کسی فعل کا وجود کے ساتھ تخصیص کو ثابت کرتے ہوں رہا اللہ تعالیٰ کا معاملہ تو ا سکی ذات سے تو صرف اور صرف وہی چیز صادر ہوتی جس کا وہی خود خالق ہے اور وہ اس کا مفعول ہے پس اگر اس فعل کی ذات میں ایسا کوئی امر نہ پایا جائے جو تخصیص کا مُوجِب ہو یعنی اُس (خاص)حادث کے موجود ہونے کاتقاضا کرتا ہودوسرے حوادث کو چھوڑ کر تو پھر تخصیص ممتنع ہو جائے گی اور فعل بھی ممتنع ہوگا۔
دوسری دلیل : وہ یہ ہے کہ کہ فرض کر لیں کہ ممکن کی ماہیت خارج میں ثابت ہے لیکن ایسی ماہیات جو اپنے وجود کو مقارن ہوتی ہیں ، وجود کے ساتھ ان میں بعض کی تخصیص کا قول کرنا دوسرے بعض کو چھوڑ کر یہ اس کے وجود کے تخصیص کے قول کی طرح ہے جس وقت کہ وہ تمام امور پائے جائیں جو اس کے وجود کا تقاضا کرتی ہوں پس اس کی ماہیت اس کے ساتھ بالکل مقارن ہیں ۔
اگر یہ کہا جائے کہ ماہیات تو خارج میں امر محقق ہیں اور یہ کسی بھی فاعل سے مستغنی ہیں تو یہ اس بات کی تصریح ہے کہ وہ ماہیات واجب بانفسہا ہیں اور مبدع (از سرِ نوع ووجود دینے میں )ہونے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ہیں اور یہ تو واضح طور پر باطل ہے اور یہ اعتراض اس نظریہ پر وارد ہوتاہے جو یہ ہے کہ معدوم کچھ بھی نہیں ہے اور یہی درست بات ہے اور ان لوگوں کے قول پر بھی جو یہ کہتے ہیں کہ معدوم بھی خارج میں ایک شے ہے ۔
فصل: اس دلیل کے صحت پرکئی طریقے سے برہا ن کا بیان
پھر اس دلیل کو مختلف طریقے سے بیان کرنا ممکن ہے مثال کے طور پر یہ کہا جائے کہ یقیناً حوادث دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہ ان کا دوام ممتنع ہوگا یعنی وہ ازلی نہیں ہونگے اور یہ بات ضروری ہے کہ اس کے لیے کوئی ابتداء ہو یا یہ کہ اس کا دوام ممتنع نہیں ہوگا یعنی وہ ازلی ہونگے اور ایسے حوادث کا پایا جانا ممکن ہوگا جن کے لیے کوئی بھی اول نہ ہو۔
اگر پہلی صورت ہے تو لازم آئے گا کہ بغیر کسی شے کے حدوث کے ذاتِ قدیم واجب الوجود سے حوادث کا صدور ہورہا ہے ،جس طرح کہ اہلِ کلام میں سے اکثر اس کے قائل ہیں چاہے وہ اس کو یوں کہیں کہ وہ قادرِ مختار ذات سے صادر ہوتے ہیں اور اس کے لیے ارادہ قدیمہ کو ثابت نہ کریں جس طرح کے معتزلہ اور جہمیہ کا قول ہے یا وہ یہ کہیں کہ وہ قادرِ مختار ذات سے صادر ہوتے ہیں ایسی ذات جو ارادہ قدیمہ ازلیہ کے ساتھ ارادہ کرتا ہے جس
|