Maktaba Wahhabi

125 - 779
اہل علم نسب دانوں نے ذکر کیا ہے۔ امام غائب کے عقیدہ کا ابطال: شیعہ کہتے ہیں : امام زمان اپنے والد کی وفات کے بعد اس سرداب میں داخل ہوگیا تھا‘ اس وقت اس کی عمر دو سال یا پھر تین سال یا پھر پانچ سال تھی۔ [شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام منتظر دویا تین یا پانچ سال کی عمر میں تہ خانہ میں داخل ہوا] نظر بریں [اس وقت وہ امام بنص قرآنی ] یتیم ہو گا ؛جس کی تربیت اور مال کی حفاظت نص قرآنی کی بنا پر ضروری ہے یہاں تک کہ اس پر عقل مندی کے آثار نظر آنے لگیں ۔اور اس کا کوئی مستحق قرابت دار اسے گود پالے گا [اورتربیت و پرورش کا اہتمام کریگا]۔ جب اس کی عمر سات سال کی ہوجائے تو اسے طہارت اور نماز کی ادائیگی کا حکم دیا جائے گا۔ غور فرمائیے! جس نے ہنوز نہ وضوء کیا نہ نماز ادا کی؛ اور اگر وہ شاہداور موجود بھی ہوتا تو از روئے نص قرآنی وہ خود اور اس کا مال و اسباب اس کے کسی ولی کی نگہداشت میں ہوتے۔ (اور ولی کی اجازت کے بغیر اسے تصرفات کی اجازت نہ ہوتی) تو پھر ایسے شخص کا اہل ایمان کا امام ہونا کیوں کر جائز ہو سکے گا؟ [یہ تو اس صورت میں ہوتا جب امام موجود ہوتا ] اور پھر اس وقت کیا عالم ہوگیا جب امام اتنی لمبی مدت سے مفقود یا معدوم ہو۔ جب کسی عورت کا ولی زیادہ مدت کے لیے غائب ہوجائے تو قاضی یا موجود ولی اس کی شادی کراسکتا ہے تاکہ اس عورت کے معلوم اورموجود ولی کے لمبا عرصہ تک غائب رہنے کی وجہ سے مصلحت فوت نہ ہو۔ توپھر امامت کی مصلحت کیسے حاصل ہوسکتی ہے جب کہ امام اتنے لمبے عرصہ سے غائب اور مفقود ہو؟ [اتنی طویل مدت میں کوئی امام کیوں نہ مقرر کیا گیا اور امامت کی مصلحت کو کیوں کر پیش نظر نہ رکھا گیا؟][1]
Flag Counter