کیا ہے کہ یہ حِسّ کے برعکس اور عقل و نقل کے خلاف ہے۔[1]
جمہوراہل سنت (متبعین سلف اور ائمہ) کہتے ہیں بندے کا فعل اس کا اپنا حقیقی فعل ہے لیکن اللہ کی مخلوق اللہ کے لیے کیا گیا فعل ہے۔ یہ نہیں کہتے کہ یہ اللہ کا فعل یہ خلق اور مخلوق او رفعل اور مفعول میں فرق کرتے ہیں ۔ (یہ فرق امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’خلق افعال العباد‘ میں جلیل القدر علماء سے نقل کیا ہے۔[2]
یہی بات کئی ائمہ سلف سے منقول ہے احناف ، جمہوریہ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذھب ہے۔ امام بغوی[3]نے چوٹی کے علماء اھل سنت سے اور ’’التعرف لمذھب أھل التصوف‘‘ میں کلا باذی نے تمام صوفیاء سے یہی نقل کیا ہے۔[4]
اکثر ھشامیہ ، معتزلتہ، کرامیہ، اھل کلام کا یہی قول ہے اسی طرح کلابیہ اور اشعری ائمہ کا یہی مؤقف ہے، ابو علی تقفی وغیرہ کے بقول کرامیہ کا قول ہے کہ فعل کا اثبات کے لیے مفعول کے علاوہ اسی طرح انہوں نے اللہ کے لیے ارادہ قدیمہ ثابت کیا ہے اور دیگر اعتقادیات کا بھی ذکر کیا ہے جب ان اور ابن خزیمہ کے مابین مسئلہ قرآن میں تزاع پیدا ہوا لیکن مجھے معلوم نہیں کہ یہ ابن کلاب کا اپنا قول ہے یا انہوں نے اس اصل کی بناء کر کہا ہے؟
خلق افعال عباد اور رافضی عقائد :
مسئلہ صفات کی طرح مسئلہ قدر میں بھی روافض کے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔
ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اعمال عباد میں رافضہ کا اختلاف ہے کیا یہ مخلوق ہیں ؟ کیا یہ اللہ کی مخلوق ہیں ؟ اللہ کے لیے مخلوق ہیں ؟ یہ تین فرقے ہیں ۔ پہلے فرقے میں سے ھشام بن حکم ہیں ان کے مطابق افعال عباد اللہ کے لیے مخلوق ہیں ۔ جعفر بن حرب نے ھشام بن حکم نے بیان کیا وہ کہتے تھے انسان کے افعال میں ایک لحاظ سے اسے اختیار ہے اور ایک لحاظ سے مجبور ہے۔ ارادے اور کسب کے لحاظ سے اختیار لیکن ابھارنے والے
|