تو اس وقت ہوتا ہے جب علم پوشیدہ ہو۔ یا پھر کسی کا برائی کا ارادہ ہو۔ان دونوں باتوں کا ہونا ناممکن تھا۔ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا علم بڑا واضح تھا ۔جبکہ برا ارادہ اس خیرالقرون کے جمہور امت سے واقع ہونا محال تھا ۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ اور مومنین ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو( خلیفہ) تسلیم نہیں کر سکتے۔‘‘
اس بنا پر آپ نے عہد نامہ تحریر کرنے کا ارادہ ترک کردیا ؛ اس لیے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت کے چرچے نے عہد نامہ تحریر کرنے سے بے نیاز کردیا تھا۔اب اس کی چنداں ضرورت نہ تھی۔اس لیے عہد نامہ تحریر نہ کیا گیا۔[1]
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امت محمدی کا اتفاق اور اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا اظہار خوشنودی کرنا عہد نامہ لکھنے سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
فصل: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت اور ابن مطہر کے خیالات پررد:
[اعتراض]:شیعہ مصنف کا قول ہے کہ ’’ اہل سنت کے نزدیک حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس لیے خلیفہ منتخب ہو گئے تھے کہ چار صحابہ کے ایماء سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔‘‘
[جواب] :[ہم جواباً کہتے ہیں کہ: یہ بالکل غلط بات ہے۔]یہ ائمہ اہل سنت والجماعت کا قول نہیں ہے ۔اگرچہ بعض اہل کلام ایسا کہتے ہیں کہ : چار اشخاص کے بیعت کرنے سے امامت منعقد ہوجاتی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں : دو افراد کے بیعت کرنے سے ؛ اور بعض کے نزدیک ایک انسان کے بیعت کرنے سے امامت منعقد ہوجاتی ہے۔
مگر یہ تمام حقیقت میں اہل سنت و الجماعت کے اقوال نہیں ہیں ۔ اہل سنت کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ امامت و خلافت کا اصلی مقصود قوت و اقتدار کا حصول ہے لہٰذا جب اصحاب قوت و شوکت کسی شخص کی خلافت پر متفق ہوجائیں تو اس کی خلافت منعقد ہوجائے گی۔اس لیے اہل سنت والجماعت کہتے ہیں :
|