کے لیے ایمان اور اطاعت ممکن ہو جاتا ہے اور یہ قول تو قطعاً فاسد ہے اس لیے کہ اگر یہ فعل کے تمام اسباب میں دونوں متساوی اور برابر ہوتے تو ان میں سے کسی ایک کا دوسرے کو چھوڑ کر فعل کے ساتھ اختصاص ،دو متماثلین میں سے ایک کا دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح ہوتا اور یہی تو قدریہ کی اصل اور بنیاد ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فاعلِ قادر مقدور کے دو طرفین میں سے ایک کو دوسرے پر بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے اور یہ باطل ہے اگرچہ اس امر میں ان کے ساتھ بعض ان لوگوں نے موافقت کی ہے جو قدر کے مثبتین ہیں ۔
رہے قدر کے وہ مثبتین جو اس اصل میں اِن کے مخالف ہیں تو ان میں سے ایک گروہ جب مسائلِ قدر میں اور بندوں کے افعال کے خلق میں کلام کرتا ہے تو وہ یہ کہتے ہی کہ قادر اپنے دو مقدورین میں سے ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتا لیکن جب وہ اللہ کے افعال اور عالم کے حدوث میں اور موجب اور مختار ذات کے درمیان فرق کرنے میں اور دہریہ کے مناظرہ میں کلام کرتے ہیں تو تو ان میں سے بہت سوں کو توپائے گا کہ وہ ان لوگوں کی طرح ان کے ساتھ مناظرہ کرتے ہیں جو کہ قدریہ اور جہمیہ مجبرہ (یعنی جبر کے قائلین )میں سے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ فاعلِ مختار دو مقدورین میں سے ایک کو بغیر مرجح کے ترجیح دیتا ہے (یعنی مناظرہ کرتے وقت اس بات کے قائل ہو جاتے ہیں )اور اسی کے ذریعے ان بڑے بڑے اصولی مسائل میں ان کا اضطراب ظاہر ہو جاتا ہے جن میں وہ قدریہ کے اصول اور جبریہ کے اصول کے درمیان دائر (متردد اور حیران )رہتے ہیں جو کہ تعطیل کے قائل ہیں اور حقیقتِ امر اور حقیقت ِ نہی کی تعطیل کے قائل ہیں ۔ اسی طرح وعد اور وعید اور اللہ تعالیٰ کے صفتِ خلق اور امر میں تعطیل کے قائل ہیں اور اسی طرح یہ لوگ فلاسفہ اور دہریہ کے اصول میں بھی حیران (متردد)اور مضطرب رہتے ہیں ۔
یونان کے مشرک فلاسفہ پر نقد
یہ لوگ اگرچہ صائبین میں سے ہیں پس یہ صائبینِ مشرکین ہیں نہ کہ وہ صائبین جو ’’حنفاء‘‘ کہلاتے ہیں جن کو قرآن نے تعریفی کلمات سے یاد کیا ہے اس لیے کہ وہ لوگ تو کواکب کی عبادت کرتے تھے اور وہ اس کے لیے بڑے بڑے ہیکل اور مجسمے بناتے تھے پھر اس میں وہ اصنام (کندہ کرکے )بناتے تھے یہی تو مشرکین کا دین ہے اور یہ اہلِ مقدونیہ اور اس کے علاوہ دیگر امثال جیسے کہ مدائن والوں کا دین ہے جومشرکین تھے ۔
اس طرح وہ اسکندر جس کا ارسطو وزیر بنے ،وہ اسکندر فلبس المقدونی تھا ،جس کی یہود و نصاریٰ تعریف کرتے ہیں اور وہ عیسیٰ علیہ السلام سے تین سو سال پہلے گزرا ہے اور یہ وہ ذوالقرنین نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہوا ہے اس لیے کہ یہ تو اس پر مقدم تھا اور وہ حنفاء مسلمین میں سے تھا اور وہ اوراس کا وزیر یعنی ارسطو کفار تھے اور سحر اور شرک کے قائل تھے ،اسی وجہ سے (شیعوں کے فرقے )اسماعیلیہ نے اپنے اقوال عقل اور نفس کے بارے میں
|