سفید اور کالا ہیں ۔
پھر یہ منکرین [نفاۃ] جو ان معانی کا انکار کرتے ہیں جن سے وہ موصوف ہے؛ وہ تمام کے تمام متناقضین اپنے قول میں نفی اور اثبات کو جمع کرتے ہیں ۔ اورپھر اسی چیز کوان امور کی تعطیل و تکذیب کی اساس بناتے ہیں جو صریح معقول اور صحیح منقول کی روشنی میں معلوم شدہ ہیں ۔
[[تاہم اگر ہم فلاسفہ کے اس مفروضہ کو تسلیم کر لیں تو بھی اس میں کوئی حرج نہیں ۔ فلاسفہ اور ان کے اتباع کی تخویف و تہویل اس ضمن میں ناقابل التفات ہے]]۔جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے علم بالاشیاء کی نفی کرنے والے کہتے ہیں کہ:’’ اس سے ’’کثرت ‘‘ لازم آتی ہے۔‘‘ اس کے پہلو بہ پہلو جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کی نفی کرتے ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ:’’ اس سے اﷲ کا تغیر پذیر ہونا لازم آتا ہے۔‘‘ گویا وہ تکثیر و تغیر کے بھاری بھر کم الفاظ سے دوسروں کو ڈرانا چاہتے ہیں ۔ حالانکہ یہ دونوں الفاظ حد درجہ مبہم ہیں اور ان کا مطلب واضح نہیں ۔ اس سے وہ دوسروں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ صفات کا اثبات کرنے سے الٰہ کا متعدد اور کثیر تعداد ہونا لازم آتا ہے۔ نیز یہ کہ اﷲ تعالیٰ انسان کی طرح تغیر پذیر ہے اور وہ اس طرح بدلتا رہتا ہے، جیسے زرد ہو کر آفتاب کا رنگ بدل جاتا ہے۔ان اقوال کا متکلم اس حقیقت سے یکسر نا آشنا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی حادث چیز کو پیدا کرتاہے، اپنے بندوں کی دعا سنتا ہے، یا اپنی مخلوقات کو دیکھتا ہے تو فلاسفہ اسے تغیر سے موسوم کرتے ہیں ۔ ان کی نگاہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہونا اور اطاعت شعار ی سے راضی ہونا بھی تغیر ہے۔ مزید برآں یہ نفی و انکار کسی دلیل پر مبنی نہیں ۔ اور لطف یہ ہے کہ وہ خود ہی اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں ۔اس لیے کہ فلاسفہ اس کو جائز کہتے ہیں کہ : قدیم محل حوادث بھی ہو۔ لیکن ان میں سے جنہوں نے جس چیز کی نفی کی ہے؛ حقیقت میں وہ مطلق طور پر صفات کی نفی کرنا چاہتے ہیں ۔ یہی حال معتزلہ کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں فرقوں کے ماہرین ؍حذاق جیسے ابو الحسین البصری اور ابو البرکات[کتاب ’’المعتبر‘‘کا مصنف]اور دیگر نے اس مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ہے۔ اورانہوں نے واضح کیا ہے کہ ان کے پاس کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر وہ نفی کرسکیں ۔ اور بیشک عقلی اور شرعی دلائل و براہین سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔[ اس کے ثبوت کو واجب کرتے ہیں ]۔
یہاں پر مقصود یہ ہے کہ : جو کوئی جسم کی نفی کرتا ہو؛ اور اس سے اس کی مراد جواہر مفردہ سے یا مادہ اور صورت سے ترکیب کی نفی ہو؛ تو یقیناً ان معانی کے حساب سے وہ درست رائے پر ہے۔ لیکن اس سے اختلاف رکھنے والے کہتے ہیں : ’’یہ جو بات تم کہتے ہو؛ وہ لغت میں جسم کا مسمیٰ نہیں ہے۔ اور نہ ہی وہ حقیقت میں اصطلاحی جسم ہے۔ پس بیشک جسم نہ اس سے مرکب ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے ۔ اوروہ کہتا ہے: یہ اصطلاحی جسم کی حقیقت ہے۔ لیکن اس سے اختلاف رکھنے والے ایسے بھی ہیں جو ان میں سے کسی ایک سے بھی ترکیب کے ہونے کی نفی نہیں
|