خلیفہ[1] عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کسی نے اپنا قائم مقام بنایا ہو ۔ جو خود کسی کا نائب بن جائے اسے خلیفہ نہیں کہتے۔ خود بخود نائب بننے والے کو ’’ خالف‘‘ کہتے ہیں ۔اس کے علاوہ کوئی اور معنی لغت کے اعتبار سے ہر گز جائز نہیں ۔ خلیفہء رسول سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ آپ نماز پڑھانے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام تھے۔وجہ یہ ہے کہ :
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں خلیفہ کے لقب سے مشہور نہیں ہوئے۔ حالانکہ آپ اس وقت بھی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ تھے۔تو اس سے یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ یہ نیابت و خلافت امامت نماز کے علاوہ جداگانہ نوعیت کی تھی۔
دوسری دلیل: جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر اپنی نیابت کا شرف عطاء فرمایاتھا؛مثلاً غزوۂ تبوک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو [2] غزوۂ خندق میں حضرت عبد اﷲ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو [3]اور غزوۂ ذات الرقاع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔[4]علاوہ ازیں دیگر صحابہ جن کو یمن و بحرین اور طائف وغیرہ میں عامل بنا کر بھیجا گیا تھا۔ اس میں امت کا کبھی بھی کوئی اختلاف نہیں رہا کہ ان میں سے کوئی شخص بھی علی الاطلاق خلیفہ کے لقب سے مشہور نہیں ہوا[اورنہ ہی کوئی اس لقب کا مستحق تھا] ۔ اس سے یہ حقیقت ضروری طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ خلافت سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس امت میں آپ کی قائم مقامی و نیابت مراد ہے؛ اس حقیقت کا کسی کو انکار نہیں ۔
اب یہ بات محالات میں سے ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یوں ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کر لیا ہو ؛جبکہ آپ نے صراحتاً کسی کو بھی یہ منصب تفویض نہ فرمایا ہو۔
اگر آپ کوصرف نماز میں اپنا خلیفہ بنائے جانے کے علاوہ کوئی دلیل نہ ہوتی تو آپ اس لقب کے مستحق نہ ٹھہرتے ۔ جیسا کہ ابھی ہم نے ذکر کیا ہے ۔ مزید برآں صحیح حدیث میں وارد ہے کہ:
|