Maktaba Wahhabi

54 - 779
ہوئے۔ کفار و مرتدین بھی شیعہ کی راہ پرگامزن ہو کر اسلامی دیار و بلاد پر چھا گئے، وہاں مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی؛ ان کا مال لوٹا اور ناحق خون بہایا۔اوران کی [کفار و مشرکین کی] مدد کی بدولت امت پر دین ودنیا کے وہ مصائب ٹوٹے جن کو صحیح معنوں میں اللہ رب العالمین ہی جانتا ہے ۔ اس لیے کہ جب اس مذہب کی بنیاد رکھنے والے زندیق ملحد اور منافقین تھے۔ جنہیں امیر المؤمنین حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی میں سزائیں دیں ‘ ان میں سے ایک گروہ کو آگ سے جلا ڈالا ‘ اور بعض کو قتل کرنا چاہا ‘ مگروہ آپ کی شمشیر بے نیام کے خوف سے بھاگ گئے۔ اور بعض افتراء پرداز لوگوں کے متعلق جب عجیب و غریب قسم کی خبریں ملیں تو انہیں کوڑوں کی سزا سنائی۔ اور کئی ایک اسناد سے آپ سے تواتر کے ساتھ روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے کوفہ کے منبر پرحاضرین کو سناکر ارشادفرمایا: (( خَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ )) [1] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے سب سے بہترین انسان ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘ آپ کے بیٹے محمد بن الحنفیہ نے بھی ایسا ہی جواب دیا تھا؛ جسے امام بخاری نے اپنی صحیح کے اندر اور دوسرے علماء ملت حنفیہ نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے ۔ اس لیے پہلے زمانے کے شیعہ ‘ یا وہ لوگ جنہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمراہی کا شرف حاصل رہا وہ حضرت ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہماکی فضیلت کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں کرتے تھے۔ان کا جھگڑا حضرت علی اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہماکے مابین فضیلت کے مسئلہ پر تھا۔ یہ ایسا مسئلہ ہے جس کا اعتراف اگلے اور پچھلے بڑے بڑے شیعہ علماء کو رہا ہے ۔ ابو القاسم بلخی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ : کسی سائل نے شریک بن عبد اللہ رحمہ اللہ سے سوال کیا اور پوچھا : ان دونوں میں سے کون افضل ہے ؟ ابو بکر یا علی [ رضی اللہ عنہما]؟آپ نے جواب دیا : ابو بکر رضی اللہ عنہ ۔
Flag Counter