میں رہ گیا اور ہجرت نہ کی، اس خاتون نے شادی کے لیے ہجرت کی شرط لگائی تو وہ ہجرت کر کےمدینہ آ گیا۔لوگوں نے اس کا نام مہاجر ام قیس رکھ دیا۔دیگر ذرائع سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو اس موقع پر آپ نے یہ حدیث مبارکہ بیان فرمائی۔
دراصل انسان جب کسی کام کی نیت کرتا ہے تو اس کی ظاہری، باطنی، جسمانی، مالی، روحانی ہر طرح کی صلاحیتیں اس مقصد کے حصول کے لیے میدان عمل میں آ جاتی ہیں۔چونکہ انسان اپنے مقصد، سوچ اور نیت کی خاطر پوری کوشش کر رہا ہوتا ہے تو اس کو اجر بھی اس کی نیت کے حساب سے ملتا ہے۔
اس ساری تفصیل سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اعمال دو طرح کے ہیں۔جائز اور ناجائز۔ناجائز کام ہر حال میں ناجائز اور ممنوع ہی ہے اس کے لیے نیت دیکھنے کی ضرورت نہیں۔اس کا گناہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ثواب کی ہرگز امید نہ رکھی جائے۔اگر کوئی اس نیت سے سودی کام کرتا ہے کہ اس کی آمدن سے غریبوں کی کفالت کروں گا یہ مسجد بناؤں گا تو اس پر سود کا وبال ہی پڑے گا۔غریبوں کو دینے یا مسجد بنوانے کا کوئی اجر نہیں ملے گا،کیونکہ قرآن کریم نے سودی معاملہ کرنے کو اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیا ہے۔اب نیت کتنی ہی نیک اور خالص کر لی جائے اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
نیت کااعتبار جائز اور حلال کاموں میں ہے۔اللہ تعالیٰ جائز کام کرنے والے کی نیت دیکھیں گے کہ وہ یہ کام یا عبادت کس سوچ اور نیت کے تحت کر رہا ہے تو جیسی نیت ہو گی ویسا ہی بدلہ ملے گا۔
شرک، بدعت، بے پردگی اور شریعت کے منع کیے ہوئے کام ہر حال اور ہر نیت کے ساتھ حرام اور ناجائز ہی ہیں۔نیت کے اچھا یا برا ہونے سے یہ جائز نہیں ہو
|