کی طرف وحی فرماتے تو یہ خواتین مشرکین تک اس کی خبر پہنچا دیتی۔
امام ابن جریح نے کہا: دونوں کافر اور منافق تھیں۔
دقائق التفسیر میں ہے:
’’ومن رضی عمل قوم حشر معهم، ولم تکن تعمل فاحشة القواط فإن ذلك لایقع من المرأة لكنها لما رضیت فعلهم عمها العذاب معهم، فکان الجزاء من جنس العمل‘‘
(دقائق التفسیر:344؍15)
’’جو کسی قوم کے عمل سے راضی ہوتا ہے اس کا حشر انہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ عورت(لوط کی بیوی) فاحشہ نہ تھی۔ یہ گناہ کر بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ قوم کا گناہ مردوں سے متعلق تھا لیکن یہ ان کے عمل پر راضی تھی اس لئے عذاب میں ان کے ساتھ شامل ہو گئی۔‘‘
یہ دونوں خواتین انبیاء کرام کی بیویاں تھیں۔ ان کے گھر جہاں عالم کے لئے مینارہ ہدایت و نور تھے۔ سیدہ مریم، ہاجرہ، سارہ، خدیجہ اور عائشہ رضی اللہ عنہن کی رفاقت ان کا مقدر بن سکتی تھی لیکن انہوں نے خیانت کا راستہ اختیار کیا۔ کفر اور منافقت ان کی ہلاکت کا سبب بن گئی اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کوئی رشتہ کوئی تعلق کوئی خاندان اور کوئی نسبت کسی کی کامیابی کی دلیل اور علامت نہیں ہے۔ بالخصوص ان خواتین و حضرات کے لئے مقام غور و فکر ہے جو کسی نہ کسی سلسلہ کے ساتھ منسلک ہونے کوضروری سمجھتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے پیری مریدی کے سلسلے سے وابستہ ہیں۔اور اسی کو نجات اور کامیابی کے لیے کافی سمجھتے ہوئے عبادات کو بجا لانے کو ضروری نہیں سمجھتے۔ نجات اللہ کی توفیق اور رحمت کے ساتھ ایمان کو اختیار
|