Maktaba Wahhabi

350 - 391
اہلِ حدیث کانفرنس کے علاوہ مدرسہ دار الحدیث مدینہ منورہ کے لیے فراہم کر کے آل انڈیا کانفرنس کے فنڈ میں جمع کرایا۔ حافظ صاحب مرحوم نہایت خوب صورت انداز میں قرآن پاک کی تلاوت فرماتے، وعظ کرتے تو بلاامتیاز لوگ متاثر ہوتے۔ قرآن پاک کی تلاوت ایسے سوز اور خوش الہانی سے کرتے کہ غیر مسلم بھی آپ سے قرآن پاک کی تلاوت سننے کی خواہش کرتے۔ اپنے گاؤں سے نہر اپر باری دوآب کے کنارے کنارے سائیکل پر بٹالہ شہر جاتے تو ساتھ ساتھ قرآن پاک کی تلاوت بھی کرتے جاتے۔ میرے بچپن (مولانا گورداس پوری) کی بات ہے کہ جب میں اپنے گاؤں کے لڑکوں کے ساتھ نہر کے قریب درختوں کے ذخیرے میں اپنے مال مویشی چراتا تو اکثر مویشیوں کے سکھ چرواہے جو اپنے مذہب سے کافی واقف تھے حافظ صاحب مرحوم کو کہتے مولوی صاحب ذرا سائیکل سے اتر کر ہمیں قرآن پاک کی چند آیات سنا جائیں۔ چنانچہ حافظ صاحب سائیکل کھڑا کر کے ہم سب کو جن میں سکھ بھی شامل ہوتے قرآن پاک کی تلاوت سے محظوظ فرماتے۔ حافظ صاحب نے ایک سکھ سردار سے گرنتھ صاحب کو پڑھا تھا، ان دنوں اکثر توحید کے وعظوں میں گورونانک کی بانیاں پڑھا کرتے تھے، مثلاً ؎ اِکّو نانک سَمرئیے جو جل تھل وَہے سمائے دُوجا کانوں سمرئیے جو جمے تے مر جائے ’’یعنی ایک ہی کی عبادت کرنی چاہیے جو ہمیشہ سے ہمیشہ تک زندہ رہے گا اس کے علاوہ دوسرے کو کیوں پوجیے جو پیدا ہو کر مر جائے۔‘‘ حافظ صاحب مستجاب الدعوات تھے۔ ایک بار موضع ورک جہاں ڈیرہ لگائے ہوئے تھے۔ وہاں کا ایک بڑا زمیندار آپ کا عقیدت مند تھا۔ اس کا لڑکا جلال الدین
Flag Counter