Maktaba Wahhabi

118 - 391
اور بعض مقامات غورِ طلب تھے، انھیں کو درست کر رہا تھا، اب اس سے بھی جلد فارغ ہو جاؤں گا اور رمضان المبارک ہی میں ترمذی کی شرح نویسی کا کام شروع کر دوں گا الخ۔‘‘ یہ مکتوب انھوں نے ۳ رمضان المبارک کا لکھا، مگر افسوس اس پر سن درج نہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ ۱۳۳۸ھ تھا، کیوں کہ ۲۹ رجب ۳۹ھ کے ایک مکتوب میں مولانا عبدللہ صاحب کو لکھتے ہیں: ’’ان دنوں شرح نویسی کا کام پھر بند ہو گیا تھا، میں سفر میں بضرورت شدید گیا تھا ۔۔۔ الخ بایں طور ابکار المنن کی تکمیل اور تحفۃ الاحوذی کا آغاز رمضان المبارک ۱۳۳۸ھ کو ہوا تھا۔‘‘ واللّٰه سبحانہ وتعالیٰ أعلم یہ کتاب سب سے پہلے ۱۳۳۸ھ/۱۹۱۹ء میں ۲۶۴ صفحات پر مشتمل مطبع فاروقی دہلی سے شائع ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن الجامعۃ السلفیہ فیصل آباد کے طلبا نے اپنی کوشش سے ۱۳۸۸ھ/ ۱۹۶۸ء میں شائع کیا۔ ابکار المنن، آثار السنن کے پہلے جز پر تنقید ہے۔ غالباً ابکار المنن کے دورِ تصنیف ہی میں تحفۃ الاحوذی لکھنے کا پروگرام بنا تو مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے آثار السنن کے جز ثانی سے بھی تعرض کیا اور اس کے اہم مباحث کا جواب تحفۃ الاحوذی میں دیا۔ اس لیے علیحدہ مستقل طور پر آثار السنن کے دوسرے حصے کے جواب کی انھوں نے ضرورت محسوس نہیں کی۔ یاد رہے کہ آثار السنن کا ایک مختصر جواب یا اس پر تبصرہ مولانا ابو المکارم محمد علی مؤی اعظم گڑھی نے التعقیب الحسن علی المولوی ظہیر احسن کے نام سے دیا تھا، جو عربی میں ۲۸ صفحات پر مشتمل تھا۔[1] 4. إعلام أہل الزمن: علامہ نیموی کی ’’آثار السنن‘‘ شائع ہوئی تو متعدد علمائے اہلِ حدیث نے اس
Flag Counter