Maktaba Wahhabi

349 - 391
ابراہیم صاحب سے سنا تھا۔ انھوں نے بتلایا کہ ذکر و فکر کے لیے ایک بار میں اور حافظ گوہر دین صاحب میاں شیر محمد صاحب کے پاس شرق پور میں گئے تھے، مگر ہمارا دل وہاں مطمئن نہ ہوا۔ ہم نے ’’اللّٰه مَعِي‘‘ کا تصور قائم کیا تو اس کے رسوخ سے نافرمانی و معصیت ہی ختم نہ ہوئی، کسی سے ملنا بھی منقطع ہو گیا، یہاں تک کہ ہمارا کھانا پینا بھی مشکل ہو گیا۔ یوں دعوت و تبلیغ بھی ختم ہو گئی، پھر ہم نے آہستہ آہستہ یہ تصور ختم کیا تو حالت نارمل ہو گئی۔ حافظ گوہر دین کے سانحۂ ارتحال پر بابائے تبلیغ پاسبانِ ختمِ نبوت حضرت مولانا محمد عبداللہ گورداس پوری رحمہ اللہ نے ہفت روزہ ’’الاسلام‘‘ ۲۰ دسمبر ۱۹۸۵ء میں ایک مضمون لکھا تھا۔ حافظ صاحب کے حوالے سے ہم کچھ باتیں اس سے نقل کر رہے ہیں، تاکہ قارئین کرام کو اس کی شخصیت کا کچھ تعارف ہو سکے۔ حافظ صاحب ۱۸۹۰ء میں ملکوال ضلع لاہور کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تعلّم کے بعد دعوت و تبلیغ کے میدان میں ناقابلِ فراموش خدمات سرانجام دیں، پورے پنجاب بلکہ ہندوستان میں بالعموم اور ضلع گورداس پور میں بالخصوص ایسے والہانہ انداز میں مسلکِ حقہ اہلِ حدیث کی تبلیغ کی کہ لاتعداد لوگ جماعت اہلِ حدیث میں داخل ہوئے، ضلع گورداس پور چونکہ قادیان کا ضلع بھی تھا جس میں ایک متنبی نے نبوتِ کاذبہ کا دعویٰ کر کے سیکڑوں لوگوں کو گمراہ کیا۔ حضرت حافظ صاحب علیہ الرحمۃ کی تبلیغ سے کئی افراد احمدیہ فرقہ سے تائب ہو کر دوبارہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، شیخ الاسلام فاتح قادیان شیر پنجاب حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے ان کے تبلیغی انداز سے متاثر ہو کر انھیں آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کا مبلغ مقرر کیا۔ انھوں نے پورے ہند میں مسلکِ اہلِ حدیث کی نہایت جانفشانی سے تبلیغ کی بلکہ ہزاروں روپیہ آل انڈیا
Flag Counter