Maktaba Wahhabi

348 - 391
گے، ہمارے بال بچے کہاں رہیں گے؟ پادری صاحب نے انھیں سمجھانے کی بڑی کوشش کی کہ ہمارے درمیان منطق کی کلی کی بات ہو رہی ہے، اس سے رہائش کی کلیوں کا کوئی تعلق نہیں۔ مگر انھوں نے ایک نہ سنی، یوں پادری صاحب کو مناظرہ بند کرنا پڑا۔ مولانا مدن پوری کا ایک مناظرہ بریلوی مسلک کے معروف مناظر محمد عمر اچھروی سے ہوا۔ تحصیل جڑانوالہ کے ایک گاؤں کا نام مانا ٹبہ (مانا ٹبہ بچیانہ سے بہ سمت مغرب تقریباً ۳ کلو میٹر کی مسافت پر واقع) ہے۔ حافظ گوہر دین مرحوم: اسی گاؤں میں حضرت مولانا حافظ گوہر دین مرحوم فروکش تھے۔ حافظ صاحب کا شمار آل انڈیا اہلِ حدیث کانفرنس کے مبلغین میں ہوتا تھا۔ درمیانہ قد، سر پر پگڑی، سفید لباس، گندمی رنگ اور گول کتابی چہرہ تھا۔ نہایت نیک، پارسا اور شب زندہ دار اور نہایت شاکر و ذاکر بزرگ تھے۔ آخر عمر میں ان کی سماعت بالکل ختم ہو گئی تھی، بہت اونچا سنتے تھے۔ ایک جمعہ کے روز نماز سے فارغ ہوئے تو ایک بزرگ سفید ریش ملے۔ اپنے تعارف میں انھوں نے بتلایا کہ میں حافظ گوہر دین صاحب کا بیٹا ہوں اور اسلام آباد سے آیا ہوں، حافظ صاحب کی باتیں ہونے لگیں تو انھوں نے بتلایا کہ آخر عمر میں ان کی سماعت بحال ہو گئی تھی۔ ہوا یوں کہ ایک بار انھوں نے بے حد عاجزی و انکساری سے دعا کی اور اپنے مولائے کریم سے عرض کی کہ بارِ الہا! اندھے بہرے تو قرآن مجید کی اصطلاح میں کافر ہیں۔ میں تیرا بندہ ہوں، حافظِ قرآن ہوں، تیرے دین کا خادم ہوں، مجھے بہرا کیوں بنا دیا ہے، اس قسم کی دعا سے فارغ ہوئے تو سماعت بحال ہو چکی تھی۔ حافظ صاحب مرحوم کا ذکر عرصہ ہوا، میں نے لیاقت پور میں میرے مہربان و شفیق جناب ڈاکٹر نذیر احمد اخترؔ مرحوم کے والدِ گرامی جناب مولانا محمد
Flag Counter