Maktaba Wahhabi

101 - 391
عبداللہ غازی پوری اور مولانا محمد فاروق چریا کوٹی سے تفسیر، حدیث، فقہ، معانی، معقولات وغیرہ مروجہ علوم کا درس لیا اور مولانا غازی پوری کے ایماء پر ۱۳۰۶ھ میں بالآخر شیخ الکل فی الکل حضرت میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی خدمت میں حاضر ہو کر صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داود، ترمذی اور دیگر کتبِ احادیث، اصولِ حدیث اور تفسیر جلالین، بیضاوی وغیرہ کا درس لیا اور اس سے سندِ اجازت حاصل کی۔ شیخ الکل کے علاوہ شیخ العرب والعجم ذہبی وقت الشیخ قاضی حسین بن محسن انصاری الخزرجی الیمانی سے ۱۳۱۴ھ میں صحاح ستہ، موطا امام مالک، مسند دارمی، مسند امام شافعی، مسند امام احمد، الادب المفرد، سنن دارقطنی، معاجم طبرانی کے اطراف کی قراء ت کی اور ان سے اجازہ حاصل کیا اور ۱۳۱۳ھ میں شیخ محمد الہاشمی الجعفری سے ’’حدیث المسلسل بالأولیۃ‘‘ کی سند حاصل کی اور علومِ نقلیہ و عقلیہ منطق، فلسفہ، ہندسہ، ہیئہ وغیرہ میں کامل مہارت حاصل کی۔ تدریسی خدمات: مولانا محدث مبارکپوری رحمہ اللہ تعلیم سے فراغت کے بعد تدریس و تصنیف میں مشغول ہو گئے۔ طبابت کا فن انھیں اپنے والدِ گرامی سے حاصل ہوا تھا، اس لیے طبابت اور افتا سے گہرا واسطہ رہا۔ والدِ محترم نے جو مدرسہ گھر میں بنا رکھا تھا اس کو انھوں نے ترقی دی اور اس کا نام ’’دار التعلیم‘‘ رکھا۔ جس میں ایک مدت تک درس و تدریس، تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا۔ مدرسہ کی شہرت ہر چہار جانب پھیلی تو تمام اطراف سے تشنگانِ علم نے وہاں کا رخ کیا۔ ’’دار التعلیم‘‘ کے علاوہ جامعہ سراج العلوم بونڈیھار، مدرسہ احمدیہ آرہ، مدرسہ دار القرآن والسنہ کلکتہ وغیرہ معروف مدارس میں درس دیا۔ دار الحدیث رحمانیہ دہلی کے ناظم شیخ عطاء الرحمان نے صدر مدرس کے لیے پیش کش
Flag Counter