Maktaba Wahhabi

263 - 391
اپنے رفقا کے تعاون سے جامعہ تعلیمات اسلامیہ یا ادارۃ العلوم الاثریہ میں اس سلسلے کا آغاز کر سکتے ہیں۔‘‘[1] جس سے ادارہ کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ادارہ اور اس کے طلبا سے ان کے تعلق خاطر ہی کا نتیجہ تھا کہ اسی ناکارہ کا پہلا مضمون جس کا عنوان خود انھوں نے ’’الجمعۃ فی القریٰ ایک تحقیقی کاوش‘‘ تجویز فرمایا جو المنبر (جلد: ۱۴ شمارہ: ۲۶) ۱۱ ستمبر ۱۹۶۹ میں شائع کیا۔ مگر یہ معلوم کر کے آپ حیران ہوں گے، جیسا کہ یہ ناکارہ خود اس کی اشاعت پر حیران و ششدر رہ گیا تھا کہ یہ مضمون اور اس کا تمام تر مواد بلاشبہ میں نے ترتیب دیا۔ مگر بلا مبالغہ اس کے اسّی (۸۰) فیصد الفاظ اور اس کی ترتیب و تنقیح حضرت مرحوم نے کی اور یہ محض ان کی ذرہ نوازی تھی کہ انھوں نے ایک طالب علم کی حوصلہ افرائی فرمائی، جس سے لکھنے کا ڈھب معلوم ہوا اور پھر اس سلسلے میں مزید حوصلہ بڑھتا گیا۔ راقم اثیم سے ان کی شفقتوں کا باب بڑا وسیع ہے۔ ملاقات کے لیے جب بھی حاضر ہوا بلاتکلف ملنے کی اجازت مرحمت فرماتے اور اپنی تمام تر مصروفیات کے باوصف دیر تک مختلف دینی مسائل پر گفتگو ہوتی۔ انھیں خاندانِ غزنویہ سے انتہائی عقیدت تھی۔ اسی بنا پر عارف باللہ حضرت مولانا محمد عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ کے کئی خطوط جو فارسی زبان میں تھے انھوں نے المنبر میں ترجمہ کے ساتھ شائع کیے۔ ایک مرتبہ اسی ناکارہ نے ان سے حضرت غزنوی رحمہ اللہ کے تلمیذِ رشید حضرت مولانا غلام رسول رحمہ اللہ آف قلعہ میہاں سنگھ کی سوانح عمری کا ذکر کیا یہ کتاب اب دوبارہ زیورِ طبع سے آراستہ ہو گئی ہے، مگر ان دنوں نایاب تھی، انھوں نے جب اس کا ذکر سنا تو تڑپ اٹھے اور
Flag Counter