Maktaba Wahhabi

256 - 391
حضرت مولانا مرحوم سے اس قلبی تعلق اور کلیہ دار القرآن والحدیث کی خدمات کے پیشِ نظر ہی میں نے ان سے جسارت کی کہ گو بفضل اللہ تعالیٰ آپ کے تلامذہ کے دست و بازو اور آپ کے رفقاء سب آپ کے تابع فرمان ہیں، تاہم اس کی آبیاری کے لیے اور مزید ترقی کی منازل سے ہمکنار کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے عزیز مولانا سعید احمد چنیوٹی صاحب کو یہاں اپنی زیرِ نگرانی تعلیم و تربیت کی خدمت کا موقع بخشیں اور ان کی سرپرستی فرمائیں۔ وہ ماشاء اللہ بہر نوع علم دوست ہیں اور اپنے اندر روشن دماغ رکھتے ہیں۔ مولانا مرحوم کئی مجلسوں میں یہ بات نظر انداز کرتے رہے۔ بالآخر انھوں نے اتفاق فرمایا اور مولانا سعید احمد صاحب جامعہ علمیہ سرگودھا سے یہاں کلیہ دار القرآن میں تشریف لے آئے اور اپنی خدمات کلیہ کے لیے وقف کر دیں۔ مگر حضرت مولانا کے انتقال کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ انسانی تدبیر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے سامنے بے بس ہے اور وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔ مولانا چنیوٹی صاحب کلیہ سے عملاً علیحدہ ہوئے مگر ان کا دل مولانا مرحوم کی یاد اور ان کے لگائے ہوئے اس گلشن کی شادابی کے لیے ہمیشہ دھڑکتا رہتا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ انھوں نے حضرت مرحوم کے سوانح حیات اور ان کی خدمات کا یہ حسین مرقع ان کے عقیدت مندوں اور آیندہ آنے والوں کے لیے محفوظ کر دیا۔ جس میں انھوں نے سترہ عنوانات کے تحت مولانا مرحوم کی زندگی اور ان کی گوناگوں صفات و خدمات کا احاطہ اور ان کی زندگی کے بہت سے مخفی گوشوں کو اجاگر کرنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے۔ جس میں ان کی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ ان کی سماجی و سیاسی اور قیامِ پاکستان میں ان کی مجاہدانہ خدمات کا بھی تذکرہ ہے۔ امرتسر اور ویرووال کی تاریخ، خاندانی تعارف، عادات و اطوار، فقہ و فتاویٰ اور ان کے ذوقِ مطالعہ کا بھی ذکر ہے۔ بلاشبہ
Flag Counter