Maktaba Wahhabi

250 - 391
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں مدرسہ غزنویہ کے ساتھ ان کے اسی تعلق کا نتیجہ تھا کہ ایک عرصہ تک آپ اس کے ممتحن بھی رہے۔ نحو، صرف، منطق، فلسفہ، بلاغت، معانی میں یکتائے روزگار تھے اور علم الفرائض میں تو گویا امام تھے۔ اس علم کی معروف درسی کتاب ’’السراجی‘‘ کی انھوں نے شرح بھی لکھی۔ مگر افسوس وہ زیورِ طبع سے آراستہ نہ ہو سکی۔ ان علوم کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ شغف علمِ حدیث سے تھا، بلکہ آخری دور میں تو باقی علوم و فنون کے درس کا سلسلہ ختم کر لیا اور اپنی تمام تر توجہ صحیح بخاری شریف کے لیے صرف کر دی، گویا: من ہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم الا حدیث یار کہ تکرار می کنیم تقریباً ۶۰ سال تک صحیح بخاری شریف کا درس دیا۔ حضرت امام بخاری اور صحیح بخاری سے انھیں والہانہ محبت تھی۔ امام بخاری کے ذکرِ خیر میں ان کی طبیعت میں وجدانی کیفیت طاری ہو جاتی۔ دورانِ درس رس بھری آواز میں سید المحدثین، امام الفقہاء کے بلند القابات سے ان کا تذکرہ ہوتا تو سماں بندھ جاتا اور ان کی خدمات بیان کرتے تو پرنم ہو جاتے۔ درسِ حدیث کے لیے بڑا اہتمام فرماتے، غسل کرتے، عمدہ لباس زیبِ تن فرماتے، مسندِ درس پر بڑے وقار اور متانت سے بیٹھتے۔ دورانِ درس کسی سے گفتگو نہ فرماتے اور یہی اہتمام زندگی بھر قائم رکھا، بلکہ زندگی کے آخری ایام میں مختلف عوارض کے باوصف اس پابندی کو نبھایا۔ حتی کہ آخری دن تھا، درسِ بخاری شریف کے لیے غسل کیا، لباس تبدیل کیا، چلنے کی تیاری میں تھے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ
Flag Counter