Maktaba Wahhabi

249 - 391
سے آگے بڑھ گئے۔ نہ کلام نہ علیک سلیک۔ میں نے مولانا محمد اکرم صاحب سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ انھوں نے بتایا یہ دار القرآن والحدیث کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ صاحب ہیں۔ یہ تھی میری ان سے پہلی ملاقات۔ اس کے بعد ان سے باقاعدہ میل ملاقات کا آغاز تب ہوا جب یہ ناکارہ ادارۃ العلوم الاثریہ میں حاضر ہوا۔ یوں تو اللہ نے انھیں بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا مگر ان میں جو چیز سب سے نمایاں تھی وہ تھی ان کا علم میں رسوخ، ورع و تقویٰ، زہد و پرہیز گاری، علمی وقار اور خود داری۔ تقریباً ساٹھ سال تک تعلیم و تعلم سے وابستہ رہنے کے باوصف نہ انھوں نے کبھی تنخواہ لی، نہ اس کا تقاضا کیا، بلکہ دل میں اس کا کہیں دور دور تک داعیہ بھی نہ تھا۔ کبھی وعظ و تبلیغ میں ’’خدمت‘‘ کو قبول نہیں کیا۔ کسی پر بوجھ بننے کے بجائے کاروبار و تجارت کو ذریعۂ معاش بنایا۔ ان کے علمی رسوخ پر یہی دلیل کافی ہے کہ ان کے شیخ محترم کو ان پر پورا پورا اعتماد تھا اور وہ استاذ الاساتذہ حضرت مولانا نیک محمد امرتسری مرحوم شیخ الحدیث مدرسہ غزنویہ امرتسر، حضرت موصوف حضرت الامام عبدالجبار غزنوی ۔نور اللہ مرقدہ۔ کے فیض یافتہ، جانشین اور شیخ کی مسند کے امین تھے۔ ایک دفعہ حضرت موصوف بیمار پڑ گئے۔ بیماری نے طول پکڑا تو تعلیم و تعلم کا سلسلہ منقطع ہوتا ہوا محسوس کیا۔ انہی ایام میں اپنی جگہ سلسلہ درس قائم رکھنے کے لیے اپنے تلامذہ میں سے جس خوش نصیب پر ان کی نظرِ انتخاب پڑی وہ ہمارے ممدوح حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمہ اللہ تھے۔ حضرت مولانا صاحب ان دنوں ویرو وال میں اپنے مدرسہ شمسیہ عربیہ میں تشنگانِ علم کو سیراب کر رہے تھے۔ حضرت الشیخ کا حکم ملا تو سب کچھ چھوڑ کر مدرسہ غزنویہ میں مسندِ شیخ پر درس دینے لگے:
Flag Counter