Maktaba Wahhabi

236 - 391
کہ شیخ ابو زہرہ نے بایں علم و فضل شیخ الاسلام کی طرف بعض باتیں ایسی منسوب کر دیں، جن کا شیخ الاسلام کی تصنیفات سے کوئی تعلق نہیں۔ حضرت مولانا نے ان مقامات پر شیخ الاسلام کے موقف کو ان کی تصنیفات سے واضح کیا ہے اور شیخ ابو زہرہ کی اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔ یہ بحث بجائے خود ایک مقالہ کا موضوع ہے، مگر ہم یہاں یہ ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے خلاف جو کچھ ان کے معاصرین یا بعد کے حضرات نے لکھا ان میں ایک الزام یہی ابن بطوطہ کا بیان کردہ ہے۔ جس سے ان کے مخالفین ہر دور میں تاثر پھیلاتے رہے کہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تجسیم و تمثیل کے قائل تھے۔ (معاذ اللّٰه ) اس الزام بلکہ بہتان کا جس حسن و خوبی سے جواب حضرت مولانا نے دیا وہ کتاب کے آخر میں چھے صفحات پر مشتمل ہے اور قابلِ دید ہے۔ البتہ مقدمہ میں اس تفصیل کا جو خلاصہ مولانا غلام رسول مہر نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے ہم اسے انھیں کے الفاظ میں درج کر دینے پر اکتفا کر تے ہیں، لکھتے ہیں: ’’مولانا کی شانِ تحقیق کے ثبوت میں صرف ایک مثال پیش کر دینا کافی ہے۔ ابن بطوطہ کے سفر نامے میں یہ درج ہے کہ جب وہ دمشق میں تھا تو جمعہ کے دن جامع مسجد میں گیا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ منبر پر وعظ کر رہے تھے۔ دورانِ وعظ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں پہلے آسمان پر اترتا ہے، پھر منبر کے بالائی حصے سے ایک پایہ نیچے اتر کر کہا: یوں اترتا ہے، جیسے میں اتر رہا ہوں، چونکہ یہ الزام عینی شہادت کے دعویٰ پر مبنی تھا۔ اس لیے اکثر لوگوں نے اسے درست سمجھ لیا۔ چھے سات سو سال تک یہ الزام جس کی حیثیت ایک تہمت سے زیادہ نہ تھی۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مخالفوں کے لیے ایک دستاویز بنا رہا اور عقیدت مند بھی اس کے خلاف کوئی واضح
Flag Counter