Maktaba Wahhabi

235 - 391
کسی راوی کے بارے میں یہ استعمال کیے جائیں، اس کی روایات سے استدلال و احتجاج تو کیا اسے بطور استشہاد و اعتبار بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے جن حضرات نے شواہد کی بنا پر اسے حسن یا صحیح کہا ہے، ان کا موقف اصولاً غلط اور ناقابلِ قبول ہے۔ یوں پورے رسالے میں محدثانہ طرزِ گفتگو اس فن سے ان کی گہری وابستگی کی دلیل ہے۔ اب آئیے رجال و اسناد ہی کے سلسلے میں ایک اہم ترین انکشاف بھی ملاحظہ فرمائیے۔ جس کی تبیین و توضیح کا سہرا بھی ہمارے حضرت مولانا رحمہ اللہ ہی کے سر ہے۔ مشہور افریقی سیاح ابن بطوطہ جس نے تقریباً تیس اکتیس سال سیر و سیاحت میں صرف کیے، نے اپنے سفر نامہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں ذکر کیا ہے: ’’میں جن دنوں دمشق میں تھا۔ جمعۃ المبارک کے روز جامع مسجد دمشق میں گیا تو ابن تیمیہ رحمہ اللہ منبر پر وعظ کر رہے تھے۔ دورانِ وعظ انھوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصے میں پہلے آسمان پر اترتا ہے، پھر منبر کی ایک سیڑھی سے نیچے اتر کر کہا کہ یوں اترتا ہے، جیسے میں اترا ہوں۔‘‘[1] حضرت مولانا رحمہ اللہ کو شیخ الاسلام سے غایت درجہ محبت و عقیدت تھی۔ شیخ ابو زہرہ مصری کی ’’حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ‘‘ اردو ترجمہ تحقیق و تحشیہ کے ساتھ شائع کیا تو حسبِ ذوق جن رجال کا تذکرہ کتاب میں جابجا آتا ہے ان کے متعلق ضروری معلومات باحوالہ مآخذ مصادر درج کر دی گئیں۔ جو ان کے حسنِ ذوق کی روشن دلیل ہے، اس کے ساتھ ساتھ پوری کتاب میں جہاں کہیں شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے بارے میں غلط فہمی کا پہلو نکل سکتا تھا۔ اس کی ضروری وضاحت خود شیخ الاسلام اور ان کے رفقا کے بیانات سے کر دی گئی، تاکہ کسی مسئلے میں کوئی الجھاؤ باقی نہ رہے۔ حد یہ
Flag Counter