یاد رہے کہ ماضی قریب میں علامہ لکھنوی رحمہ اللہ نے التعلیق الممجد کے مقدمہ میں موطا امام محمد رحمہ اللہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ موطا کا ایک ایسا نسخہ ہے جو تمام نسخوں حتی کہ جو بروایت یحییٰ اللیثی رحمہ اللہ مروی ہے، اس سے بھی راجح ہے، جس پر تفصیلی نقد ہمارے مولانا عبدالنصیر رحمہ اللہ نے ’’تبصرۃ الناقد برد کید الحاسد‘‘ میں کیا اور بحث کا حق ادا کر دیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے ہٹ کر اسے فقہ عراقی کا جامہ تو پہنا دیا، مگر علمائے احناف کے ہاں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور حنفی مسلک کی جو ظاہر الروایت کتابیں شمار ہوتی ہیں۔ اس فہرست سے موطا یقینا خارج ہے۔ گویا اس کی اکثر و بیشتر روایات پر اگر محدثین نے اعتماد نہیں کیا تو خود فقہ حنفی میں بھی اسے کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ امام محمد رحمہ اللہ کی دیگر کتب مثلاً الجامع الصغیر، المبسوط، الجامع الکبیر، السیر والزیادات پر نقل مذہب میں تو اعتماد کیا جائے اور انھیں ظاہر الروایت قرار دیا جائے، مگر موطا کا کہیں شمار و قطار ہی نہ ہو۔ یہ ناکارہ تو اسے بھی امام مالک رحمہ اللہ کی کرامت ہی سمجھتا ہے۔ بہرحال اسی تناظر میں حضرت مولانا کی اس مختصر بحث کو دیکھ لیجیے کہ اس میں کس خوش اسلوبی اور ناقابلِ تردید دلائل سے اپنے موقف کی وضاحت کی ہے۔
دل تو چاہتا ہے کہ اسی طرح الجامع الصحیح للامام البخاری، موطا امام مالک رحمہ اللہ ، مسند ابو حنیفہ کے سلسلے میں جو بیش بہا معلومات حضرت مولانا نے جمع کر دی ہیں ان کو بھی اپنے اردو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، مگر ان مباحث کی تفصیل کی یہاں گنجایش نہیں۔ تقاضائے اختصار کے باوجود یہ عنوان پہلے ہی طویل ہوتا جا رہا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سلسلہ سند کے متعلق اس اہم ترین کتاب کی تحقیق و توضیح اور اس کی طباعت و اشاعت ہی اس فن میں حضرت مولانا کے کمال کی دلیل ہے۔
|