Maktaba Wahhabi

232 - 391
مالک رحمہ اللہ کے بجائے امام محمد رحمہ اللہ کی طرف ہے، مگر امام محمد رحمہ اللہ نے اپنے مذہب کی تائید میں جو زائد روایات ذکر کی ہیں۔ ان کے بارے میں علامہ حبیب اللہ شنقیطی رحمہ اللہ نے وضاحت کر دی ہے کہ وہ اکثر و بیشتر ضعیف اور ناقابلِ اعتبار ہیں۔ اس تفصیل سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ موطا امام محمد درحقیقت حدیث کی نہیں، بلکہ فقہ حنفی کی کتاب ہے۔ شاہ صاحب کا یہاں اسلوبِ بیان اسی کا موید ہے۔ اس کی حیثیت وہ نہیں جو موطا امام مالک کی ہے۔ جیسا کہ شاہ عبدالحق اور ان کے بعض ہمنوا حضرات نے سمجھ لیا ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب موطا امام محمد میں بہت سی ایسی روایات نہیں ہیں، جو موطأ امام مالک کے تمام نسخوں میں موجود ہیں۔ علامہ لکھنوی رحمہ اللہ کی تصریح کے مطابق موطا امام محمد میں کل (۱۰۰۵) احادیث و آثار ہیں، جب کہ بحسبِ تصریح علامہ زرقانی وغیرہ موطا امام مالک میں (۱۷۲۰) احادیث و آثار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متقدمین مالکیہ اور عموماً محدثین رحمہم اللہ نے اسے موطا امام مالک رحمہ اللہ کا نسخہ قرار نہیں دیا اور نہ ہی اس پر ایسا اعتماد کیا ہے جو اعتماد موطا کے باقی نسخوں پر ہے اور نہ ہی اس کی شروح و حواشی اور اس کی مرویات کا اس قدر اہتمام ہوا، جس قدر موطا بروایت یحییٰ اللیثی کا ہے اور جب عموماً موطا کا نام لیا جاتا ہے تو اس سے مراد یہی موطا امام مالک رحمہ اللہ بروایت یحییٰ اللیثی لیا جاتا ہے اور ہمیں معلوم نہیں کہ دسویں صدی ہجری سے پہلے کسی نے اس کی شرح بھی لکھی ہو۔ سب سے پہلے علامہ علی قاری رحمہ اللہ المتوفی ۱۰۱۴ھ نے اس کی شرح لکھی، ان کے بعد علامہ ابراہیم بیری زادہ الحنفی المتوفی ۱۰۹۹ھ اور آخر میں علامہ لکھنوی الحنفی المتوفی ۱۳۰۴ھ نے اس کے حواشی لکھے ہیں اور شیخ ترہٹی نے ’’الیانع الجني في اسانید شیخ عبدالغني‘‘ میں لکھا ہے کہ واسناد روایتہ غریب في الفھارس کہ فہارس میں اس کی روایت کی سند بڑی غریب ہے۔‘‘[1]
Flag Counter