Maktaba Wahhabi

165 - 391
کا بڑا اہتمام تھا۔ جس عمل کو حدیث و سنت کی روشنی میں صحیح سمجھتے اس پر عمل کرتے۔ بیٹھ کر جوتا پہننے کی حدیث کو وہ صحیح سمجھتے تھے۔ اس لیے ہر حال میں اس پر عمل کرتے۔ حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ کے اس بارے میں دو مضامین ’’الاعتصام‘‘ جلد نمبر ۴۳ شمارہ ۲۳، ۷ جون ۱۹۹۱ء اور جلد نمبر ۴۴، ۱۹۹۲ء میں شائع ہو چکے ہیں۔ جن سے ان کے موقف کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ راشدی خاندان کی نسبت سے ان کا حلقہ بڑا وسیع تھا مگر تعویذات کا کوئی دھندا نہ تھا، حتی کہ پانی پر دم کرنا بھی آخری عمر میں انھوں نے چھوڑ دیا کہ اس میں نفخ فی الماء پایا جاتا ہے۔ ارادت مند سندھی رسم و رواج کے مطابق حاضر ہوتے تو یہ طریقہ ان پر ناگوار گزرتا۔ جھکی ہوئی گردن اور ہاتھ اوپر اٹھا دیتے۔ پہلی بار جب حاضرِ خدمت ہوا، دو روز بعد جب اجازت چاہی تو سندھ کی معروف رلّی ’’گِندی‘‘ عطا فرمائی۔ میں نے عرض کی: حضرت اس تکلف کی ضرورت نہ تھی۔ فرمایا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( تَھَادُوْا تَحَابُوْا )) میں نے بھی اسے نعمتِ غیر مترقبہ سمجھ کر ابھی تلک سنبھال رکھا۔ مگر افسوس ربع صدی سے زائد عرصہ گزرنے کی بنا پر اس کی آب و تاب ختم، بلکہ دھلائی کے بعد اس کی رنگت پھیکی پڑ گئی۔ رہے نام اللہ کا۔ ایک سچے عالم کے لیے سب سے عزیز تر کتاب اور کتب خانہ ہوتا ہے، وہ مال و زر کے ضیاع پر اتنا پشیماں نہیں ہوتا جس قدر کتاب کے گم ہو جانے پر ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا: ألا یا مستعیر الکتب أقصر إن الکتاب شيء لا یُعار محبوبي في الدنیا کتاب ھل رأیت محبوباً یُعار ’’اے کتاب کو عاریتاً طلب کرنے والے ٹھہر! کتاب ایسی چیز ہے جو عاریتاً نہیں دی جا سکتی، دنیا میں میرا محبوب کتاب ہے، کیا تو نے دیکھا
Flag Counter