Maktaba Wahhabi

164 - 391
جاری رہا۔ پنجاب تشریف لاتے تو کوئی نہ کوئی تقریب زیارت کا سبب بن جاتی۔ ایک بار تو فیصل آباد میں ادارۃ العلوم الاثریہ کو ان کے قدومِ میمنت لزوم کا شرف حاصل ہوا اور یوں ہمیشہ ان سے نیاز مندی رہی۔ اس ناکارہ کے ساتھ ان کی شفقتوں اور بے پناہ محبتوں کا یہ عالم تھا کہ جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سارے مشاغل چھوڑ کر میرے لیے مکتبہ میں تشریف رکھتے۔ ہر چند کہ مکتبہ سے بہت حد تک تعارف تھا، تاہم کسی کتاب کی تلاش میں کچھ تاخیر ہو جاتی تو خود اٹھتے کتاب نکال کر دیتے اور فرماتے ہم یہاں کس لیے بیٹھے ہیں، مجھے سخت ندامت ہوتی اور عرقِ انفعال میں ڈوب جاتا کہ اس پیرانہ سالی میں مجھ ایسے ناکارہ پر ایسی نوازشیں۔ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَارْحَمْہُ حسبِ پروگرام جب اپنے کام سے فارغ ہوتا، اجازت چاہتا تو ایک دن مزید ٹھہرنے کا فرماتے۔ مگر اپنی متنوع مصروفیات کی بنا پر معذرت کرتا تو فرماتے: چلیے آپ کو اسٹیشن تک چھوڑ آتے ہیں۔ چنانچہ کبھی حیدر آباد اور کبھی نواب شاہ اپنے ڈرائیور کے ہمراہ اس ناکارہ کو اسٹیشن تک پہنچاتے۔ بلکہ گاڑی میں بٹھاتے اور جب تک گاڑی روانہ نہ ہوتی، پلیٹ فارم میں تشریف رکھتے۔ اللہ، اللہ! کہاں علم و فضل، ورع و تقویٰ، تحمل و بردباری کا پہاڑ اور کہاں اس ناکارہ سے ان کی یہ شفقتیں۔ آج بھی جب اس منظر کو سامنے لاتا ہوں تو آنکھیں نمناک ہو جاتی ہیں اور دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اَللّٰھُمَّ ارْفَعْ دَرَجَتَہُ فِيْ الْمَھْدِیَّیْنَ۔ حضرت شاہ صاحب کی زندگی بلاریب سلف کا نمونہ تھی۔ خاندانی وجاہت اور وسیع حلقۂ ارادت کے باوصف تواضع و انکساری میں، مہمان نوازی میں، صاف گوئی میں ان جیسا کسی کو نہیں پایا۔ اکلِ حلال اور صدقِ مقال ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ اتباعِ سنت
Flag Counter