Maktaba Wahhabi

54 - 130
والا اوراس کی حدود کی حفاظت کرنے والا ہوں ۔‘‘[1] رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیاں موسم بہار کی طرح تروتازگی لیے ہمارے لیے مثالی نمونہ ہیں جوہماری زندگیوں کو سروروسعادت،خوشی ومسرت اور فرحت و انبساط سے بھردینے کے لیے کافی وشافی ہیں ۔ جہاں تک عورت کو تفریح کی اجازت دینے کا تعلق ہے تووہ اخلاقی حدودمیں رہ کرسیر و تفریح کرے۔اس کی مثالیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات میں گزر چکی ہیں ۔اسلامی اصولوں کی روشنی میں عورت کے لیے سیر و تفریح کے ضوابط متعین کیے ہیں ۔اسلام عورت کوفحاشی اورعریانیت اوربے پردگی،وفیشن پرستی کی غلامی سے آزادرہنے کی ترغیب دیتا ہے۔ لیکن اس دورمیں کالجز اوراسکول کے ماحول کو فیشن اور بے حیائی نے ایسامسحورکیا ہے کہ مسلمان بیٹی دینی تعلیم و آگاہی سے دور ہونے کی وجہ سے مغربی تعلیم میں اس قدر کھوگئی ہے کہ وہ ہر اخلاقی قدر کو بھول چکی ہے ؛ اور وہ بھولی بھالی اسلام کی بیٹی سیر و تفریح اور خوش طبعی کے نام پر ایسے کاموں کاارتکاب کرجاتی ہے جن کا نتیجہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ندامت و حسرت اور گھاٹے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ یہ اسلام کے ضوابط کی ہی أثرپذیری ہے کہ جس نے نوجوان نسل کوان تلخ نتائج،اور ایسے ہولناک وبھیانک انجام سے باخبر کیا ہے جوآوارگی اورگمراہی کی دین ہے جس میں ہمارے نوجوان بھٹک رہے ہیں ۔ان تحریکوں نے انحراف وگمراہی کے گرداب میں نوجوان نسل کو ایسا لپیٹا ہے کہ ان کا وجودامت مسلمہ میں اجنبی سامعلوم ہونے لگا ہے ۔جن کا اسلام اورمثالی سماج ومعاشرے سے ذرہ برابر بھی تعلق محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ علماء وقت نے اس کے تدارک کے لیے یہ تدابیر تجویزکی ہیں : ۱۔ لائبریری میں ؛ کتب بینی اور ورق گردانی میں زیادہ سے زیادہ وقت گذاراجائے۔
Flag Counter