Maktaba Wahhabi

53 - 130
’’ یہ اس جیت کا بدلہ ہے۔‘‘[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے اس باب میں بھی اسوہ اور زندئہ جاوید نمونہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش طبع تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بہتکشادہ اوروسیع تھا۔آپ تفریح اورراحت نفس کے لیے بھی موقعہ نکالا کرتے تھے تاکہ زندگی کے اندراعتدال اورتوازن کی راہ ہموارہوسکے ۔اس کی ایک مثال اس واقعہ سے ملتی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’اللہ کی قسم! مجھے وہ منظراب بھی یاد ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرہ کے دروازہ پر کھڑے ہیں ۔ حبشی لوگ مسجدنبوی میں نیزوں کے ذریعہ کھیل رہے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی چادرمیں چھپائے ہوئے ہیں ، اورمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے اورکان کے درمیان سررکھے ان کا کھیل دیکھ رہی ہوں ۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم میری وجہ سے کھڑے رہتے ہیں اوراس وقت تک کھڑے رہتے ہیں جب تک کہ میں خودپلٹ کرچلی نہ جاتی۔‘‘ (متفق علیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش طبعی اوربذلہ سنجی ،ہنسی مذاق اورخوش کن ومزیدار لطیفوں ،نیز تفریح وخوش طبعی نفس کی ترغیب دی ہے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگیاں بھی ان اخلاق کریمانہ سے مزین تھیں ۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کواپنی زندگیوں میں اعتدال اور توازن پیداکرنے کا حکم دیکران کی زندگیوں کو ایک مثالی زندگی کی راہ پراستوار ہونے کاطریقہ سکھلایا تھاتاکہ وہ حسن معاشرت،نرم خوئی،کشادہ روئی، خوش طبعی، اوروسعت ظرفی میں مثالی انسان بن کراپنی بڑی بڑی ذمہ داریاں بحسن وخوبی سرأنجام دیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: ’’اے عثمان:ہم پررہبانیت فرض نہیں کی گئی ہے کیا تمہارے لیے میری ذات بطور اسوہ کافی نہیں ہے؟ اللہ کی قسم !میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے
Flag Counter