Maktaba Wahhabi

44 - 130
اور مسند ابو یعلی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی قول ہے : ’’ رات کو گفتگوکرنا تین لوگوں کے لیے جائز ہے :دلہن ،مسافر یا تہجد پڑھنے والا ۔‘‘ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک باب یوں قائم کیا ہے: ’’اہل خانہ اور مہمان سے رات کو گفتگو کرنے کا بیان۔‘‘ اور دوسرا باب یوں ہے: ’’ علم و فقہ اور دین و بھلائی کے کاموں میں گفتگو ۔‘‘ خلاصہ: اس مسئلہ میں خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نمازِ عشاء کے بعد گفتگو کرنا مکروہ ہے سوائے اس کے کہ وہ مسلمانوں کی خیر و بھلائی کے بارے میں ہو یا پھر کسی ایسی ضروری چیز کے بارے میں ہو جس کے بارے رات ہی رات گفتگو کرلینا از بس ضروری ہو ۔ہر وہ رتجگہ جو کسی شرعی فرض یا واجب کے ضیاع کا باعث بنے وہ حرام ہے چاہے فی نفسہ وہ امور اطاعت و عبادت اورمطالعہ و استفادہ کے لیے ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح ہر وہ رتجگہ جو کسی حرام کام میں واقع ہونیکا سبب بنے وہ بھی حرام ہے ۔ہاں اگر کوئی ایسا رتجگہ ہوجس کے نتیجے میں نہ تو کوئی دوسرا فرض و واجب ضائع ہو نہ ہی کوئی اس رات میں کیے جانے والے کام سے کسی دوسری اعلی شرعی مصلحت کے ضائع ہونے کا کوئی خطرہ ہو تو پھر وہ رتجگہ محمود و مطلوب اور پسندیدہ (شب زندہ داری ) ہے ۔ مسلمانو ! بے شمار لوگ ایسے حرام رتجگوں میں مبتلا ہو چکے ہیں جو ان میں سے اکثر کی نمازِ فجر کونہ صرف قضابلکہ ضائع کردینے کا باعث بنتے ہیں ، اور وہ لوگ جو مساجد میں مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نمازِ فجر ادا کرتے ہیں وہ بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں ۔ باعث ِ حسرت وندامت افعال پر لاپرواہی : یہ رتجگے ایک عام سی بات بن کر رہ گئے ہیں اور اکثر لوگوں کو دل بلکہ کوئی بھی ان پر نکیر
Flag Counter