Maktaba Wahhabi

274 - 358
اس کے بعد صحابۂ کرام کا مانعینِ زکات سے قتال پر اجماع ہوگیا۔ علاوہ ازیں حدِّ رجم کے اثبات کے لیے چار عینی گواہوں، حدِ رجم اور نزولِ مسیح پر بھی صحابہ کا اجماع ہے اور یہ اجماع صحابہ کے اجتہاد پر نہیں، بلکہ واضح نصوصِ شریعت پر مبنی ہے۔ صحابہ کے ان اجماعی مسائل سے انکار ایسی صریح گمراہی ہے جو کفر و الحاد تک پہنچا دینے والی ہے۔ فراہی گروہ ان اجماعی مسائل کا انکار کر کے اپنے کفر پر مہرِ تصدیق ثبت کر رہا ہے۔ عمار صاحب کا نمبر (۲) پیرا ملاحظہ ہو: ’’قرآن یا سنت کے نصوص، دلائلِ شرعیہ میں بنیادی اور اساسی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں، جبکہ اجتہاد اور اجماع ان نصوص پر متفرع ہونے کی وجہ سے ثانوی دلیل کا۔ اس وجہ سے اجماع کی قوت یا ضعف اور قطعی یا ظنی ہونے کا تعین اس شرعی دلیل کی نوعیت کے لحاظ سے ہوگا، جس پر وہ مبنی ہے۔ اگر اجماع کی اساس بننے والے شرعی دلائل قطعی اور یقینی ہیں تو اجماع کا درجہ بھی یہی ہوگا اور اگر وہ دلائل ظنی و استنباطی ہیں تو اجماع بھی اسی درجے کی دلیل ہو گا۔‘‘[1] عزیز موصوف کے اس اقتباس سے ہم پوری طرح متفق ہیں کہ اجتہاد دو قسم کا ہے: ایک نصوصِ شریعت پر مبنی اور دوسرا ظنی و استنباطی۔ دورِ صحابہ کے بعد کے مزعومہ اجماعی مسائل زیادہ تر دوسری قسم کے ہیں، جن سے دلائلِ شرعیہ کی بنیاد پر اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اول الذکر (عہدِ صحابہ کے) اجماعی مسائل میں نہ اجتہاد کا کوئی جواز ہے اور نہ ’’تحقیق‘‘ کے نام پر ان سے انحراف کی اجازت ہے۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ایسی انحرافی تاویل نہ صرف گمراہی ہے، بلکہ
Flag Counter