Maktaba Wahhabi

105 - 358
ایک ہی روایت پیش کر دیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اوباشی کی سزا میں فلاں عورت یا فلاں مرد کو رجم کی سزا دی تھی؟ کیا قرآن کی معنوی تحریف کو ’’نصوصِ قرآنی‘‘ کہا جا سکتا ہے؟ ہماری اس تفصیل سے واضح ہے کہ مزعومہ سزائے رجم کو قرآنی نصوص یا روایات پر مبنی قرار دینا بھی اسی طرح بدترین جھوٹ ہے، جیسے ان کا یہ دعویٰ کہ میرے موقف اور ائمۂ سلف کے موقف میں بال برابر بھی فرق نہیں ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ خود ساختہ نظریۂ رجم قرآنی نصوص پر ہر گز مبنی نہیں ہے، بلکہ آیتِ محاربہ کی معنوی تحریف پر مبنی ہے، جس کی ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں۔ اب ہمیں اس نئی ’’دلیل‘‘ پر غور کرنا ہے کہ قرآن کریم کے کسی لفظ کی ایسی تشریح جو آج تک کسی صحابی، تابعی، مفسر، محدث، امام و فقیہ نے نہیں کی، بلکہ وہ قرآن کی تحریف معنوی ہو، کیا ایسی تشریح یا ایسی تحریفِ معنوی کی بنیاد پر کسی خود ساختہ نظریے کو ’’نصوصِ قرآنی‘‘ پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے؟ ظاہر بات ہے اس کا جواب نفی ہی میں ہوگا۔ جیسے ’’ختمِ نبوت‘‘ کا مسئلہ ہے، جو قرآن کے لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ کے صحیح مفہوم پر مبنی ہے، لیکن مرزائی خاتم النبیین کی غلط تشریح کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر سے نبی بن کر آیا کریں گے۔ اس طرح قرآن کے اس لفظ سے جو ختمِ نبوت پر نصِ صریح ہے، مرزائی اس کے برعکس اس کی غلط تشریح اور اس میں معنوی تحریف کر کے اجرائے نبوت کے خود ساختہ نظریے کا اثبات کرتے ہیں۔ اگر کوئی مرزائی کہے کہ ہمارا اجرائے نبوت کا عقیدہ ’’نصوصِ قرآنی‘‘ پر مبنی ہے۔ کیا یہ دعویٰ یا عقیدہ صحیح ہوگا؟
Flag Counter