Maktaba Wahhabi

351 - 358
ٹوٹ جانے کا خوف کن صورتوں میں متحقق ہو گا؟ فدیہ کی مقدار متعین کرنے میں انصاف کیا ہے؟ اور اگر عورت افتدا پر آمادہ ہو، لیکن مرد قبول نہ کرے تو ایسی صورت میں قاضی کو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ ان مسائل کی تفصیلات ہم کو خلع کے ان مقدمات کی رودادوں میں ملتی ہیں، جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ صدرِ اول کے نظائر در بابِ خلع: خلع کا سب سے مشہور مقدمہ وہ ہے، جس میں سیدنا ثابت بن قیس سے ان کی بیویوں نے خلع حاصل کیا ہے۔ اس مقدمے کی تفصیلات کے مختلف ٹکڑے احادیث میں وارد ہوئے ہیں، جن کو ملا کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ثابت سے ان کی دو بیویوں نے خلع حاصل کیا تھا۔ ایک بیوی جمیلہ بنت ابی بن سلول (عبداﷲ بن ابی کی بہن[1]) کا قصہ یہ ہے کہ انھیں ثابت کی صورت ناپسند تھی۔ انھوں نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خلع کے لیے مرافعہ کیا اور ان الفاظ میں اپنی شکایت پیش کی: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لَا یَجمَع رأسي وَرَأْسَہٗ شَیْیٌٔ أَبَداً إِنِّيْ رفعت جانب الخباء فرأیتہ أقبلَ في عِدۃ فإذا ھُوَ أشدُّھم سواداً وأقصرھم قامۃ وأقبحھم وجھا‘‘ (ابن جریر) ’’یا رسول اﷲ! میرے اور اس کے سر کو کوئی چیز کبھی جمع نہیں کرسکتی۔ میں نے اپنا گھونگھٹ جو اُٹھایا تو وہ سامنے سے چند آدمیوں کے ساتھ آرہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ان سب سے زیادہ کالا اور سب سے زیادہ پستہ قد اور سب سے زیادہ بدشکل تھا۔‘‘
Flag Counter