Maktaba Wahhabi

143 - 358
کشتی کے سوار، ایک ہی منہج کے حامل، ایک ہی فکر اور نظریے کے داعی، ایک ہی منزل کے راہی اور سلف کی تفسیر و تشریحِ دین کے یکساں دشمن ہیں تو پھر اس مغایرت کے اظہار کے کیا معنی؟ اور ان پر نشتر زنی کیوں؟ اگر آپ کے اندر یہ اہلیت ہے کہ تمام ائمۂ اعلام اور اساطینِ علم کے موقف کے برعکس سنتِ رسول کا تیا پانچا کر دیں، قرآن میں تحریفِ معنوی کا ارتکاب کر کے اپنے من گھڑت نظریے کو قرآن کے سر منڈھ دیں تو دوسرا منکرِ حدیث بھی آپ ہی جیسی اہلیت کا مدعی ہو کر قرآن کے صلاۃ و زکات کے مفہوم کو بدل ڈالے تو اس کو اس کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ بنا بریں دوسرے منکرینِ حدیث اور بزعمِ خود منکر بننے والوں سے اپنے آپ کو مختلف باور کرانا بھی ایک مغالطہ انگیزی اور سراسر دھوکا اور فریب ہے، جب کہ اصل میں دونوں ایک ہیں ؎ کون کہتا ہے کہ ہم تم میں جدائی ہوگی یہ ہوائی کسی دشمن نے اُڑائی ہوگی تاہم غامدی صاحب کے اس قول سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ قرآن و حدیث کی تشریح و تعبیر کا حق صرف اسی کو حاصل ہے، جو ائمۂ سلف کی تشریح و تعبیر کا پابند ہو اور اس کی تشریح و تعبیر بھی سلف کے منہجِ صحیح کی آئینہ دار ہو، گو خود ان کی اپنی تشریح و تعبیر بھی اس کے بالکل برعکس ہے۔ ایک اور مغالطہ انگیزی اور علما پر طعنہ زنی: 8 غامدی صاحب فرماتے ہیں: (( الأئمۃ من قریش )) مشہور روایت ہے۔ (مسند أحمد، رقم: ۱۱۸۹۸) اس حدیث کے ظاہر الفاظ سے ہمارے علما اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگئے
Flag Counter