Maktaba Wahhabi

174 - 358
ہے اور کسی کے نزدیک قیاس کے بغیر ہی یہ چیز چونکہ اس کے معنی و مفہوم میں داخل ہے، اس لیے یہ بات ’’من باب کون الشییٔ في معنی الشییٔ‘‘ کے تحت اس میں داخل ہے۔ تاہم اس بات سے انکار کسی کو نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ بات بھی اجماعِ امت سے طَے پا گئی ہے کہ جس طرح ایک مرد عورت پر الزامِ زنا (قذف) عائد کر سکتا ہے، اُسی طرح ایک عورت بھی یہ الزام عائد کر سکتی ہے۔ اس لیے سورت نساء کا صرف وہی مفہوم مراد لینا صحیح ہے، جو اُس کے ظاہری الفاظ سے واضح ہے۔ اس میں مزید کسی اور کو داخل کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر آیت کو اس کے ظاہری مفہوم سے نکال کر اس میں عموم پیدا کرنا صحیح نہیں ہے۔ آیاتِ لعان میں شہادت باﷲ کا مطلب حلف باﷲ (قسم) ہے: اسی طرح آیاتِ لعان میں {أَرْبَعَ شَھَادَاتٍ باللّٰہ} میں اصطلاحی شہادت مراد لے کر مرد و عورت کی گواہی کو برابر قرار دینا بھی صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہاں ’’شھادات باللّٰه ‘‘ کے معنی قسموں کے ہیں، کیوں کہ شہادت تو ایک انسان دوسرے انسان کے بارے میں دیتا ہے، جب کہ یہاں میاں بیوی جو ’’شہادت‘‘ دیتے ہیں، وہ اپنے اپنے بارے میں ہے۔ خاوند خود اپنے بارے میں چار مرتبہ حلف اُٹھا کر یہ کہتا ہے کہ وہ اپنی بیوی پر جو الزام عائد کر رہا ہے، اُس میں وہ سچا ہے اور بیوی حد سے بچنے کے لیے چار مرتبہ حلف اُٹھا کر یہ کہتی ہے کہ خاوند جھوٹا ہے۔ علاوہ ازیں حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی اسے قَسمیں ہی قرار دیا گیا ہے۔ عہدِ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں لعان کا جو واقعہ ہوا، اس میں عورت جھوٹی تھی، کیوں کہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ خاوند کے بجائے زانی مرد کے مشابہ تھا، اُس موقعے پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: (( لَوْلَا الْأَیْمَانُ لَکَانَ لِيْ وَلَھَا شَأْنٌ ))
Flag Counter