Maktaba Wahhabi

128 - 358
بھونڈے انداز میں پیش کر کے ساقط الاعتبار قرار نہ دیتے، بلکہ احادیثِ رسول کا احترام کرتے ہوئے ان کے مابین معمولی سے ظاہری تعارض کو ائمہ سلف کی طرح نہایت آسانی سے دور کر سکتے تھے، جیسا کہ محدثین اور فقہا نے کیا ہے۔ اس میں دلچسپ لطیفہ یہی ہے کہ موصوف نے ایک روایتِ رجم کو اپنے مطلب کی سمجھ کر اس سے اپنا غلط مفہوم تو اَخذ کر لیا اور اس سے اوباشی کی سزا بھی ’’مستنبط‘‘ فرما لی، جب کہ اس میں قطعاً اس سزا کا اشارہ تک بھی نہیں ہے، تاہم انھوں نے جیسا کچھ استدلال کیا، اس سے قطع نظر، استدلال تو کیا، لیکن اس میں بھی تعارض موجود تھا، جس کا حل آپ نے ان کے اقتباس میں ملاحظہ کر لیا ہے۔ یہی حل اور جمع و تطبیق کی اسی قسم کی صورتیں ائمہ سلف اور محدثین نے بھی پیش کی ہیں، وہ کیوں ناقابلِ قبول ہیں؟ اسی لیے ناقابلِ قبول ہیں کہ اصل مقصود احادیث کا رد اور ان کا انکار ہے اور یہ انکار کیوں ہے؟ کہ اس کے بغیر ان کا خانہ ساز نظریۂ رجم ع پائے چوبیں سخت بے تمکین بود کا مصداق ثابت ہوجاتا ہے۔ اپنے بلند بانگ دعوے کی خود ہی تردید: ذرا دیکھیے! غامدی صاحب کتنی بلند آہنگی سے احادیثِ رجم کو ناکارہ ثابت کرنے کے بعد دعویٰ کرتے ہیں: ’’رجم کے بارے میں یہی روایات ہیں جو احادیث کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے بیان ہوئی ہیں۔ ان کا ذرا تدبر کی نگاہ سے مطالعہ کیجیے۔ ’’پہلی بات جو ان روایات پر غور کرنے سے سامنے آتی ہے، وہ ان
Flag Counter