Maktaba Wahhabi

346 - 358
نے ان حلوں کو کیوں قبول نہیں کیا اور اب بھی اس کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟ اس سے تو بظاہر یہی مفہوم نکلتا ہے کہ جس طرح فقہ حنفی میں ان کا حل نہیں ہے، شریعتِ اسلامیہ میں بھی ان کا حل نہیں ہے۔ اگر ہمارا یہ سمجھنا غلط ہے تو یہ علما جواب دیں کہ ان کے اکابر نے ایسا کیوں کیا؟ اور اب بھی شریعتِ اسلامیہ کے حل کو ماننے کے لیے کیوں تیار نہیں؟ علاوہ ازیں پھر یہ کہنا: ’’خاص طور پر ان مقامات میں جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا کوئی قاضی موجود نہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں۔‘‘ لیکن قاضی کو تو علمائے احناف تفریق بین الزوجین کا اختیار دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں تو پھر قاضی کی دہائی کیوں؟ بہر حال یہ چند باتیں یا سوالات، مولانا عثمانی صاحب کا اقتباس نقل کرتے ہوئے بے اختیار ذہن میں پیدا ہوگئے۔ ہمارا اس اقتباس سے اصل مقصود یہ واضح کرنا تھا کہ علمائے احناف خُلع کی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جو قرآن و حدیث کی نصوص سے ثابت ہیں۔ اس لیے وہ خواتین کی مشکلات کے اس حل کو تو نہیں مان رہے ہیں اور اس کے متبادل اپنے وضع کردہ حل ’’تفویضِ طلاق‘‘ ہی کو اس کا واحد حل بتلا رہے ہیں۔ إنا للّٰه وإنا إلیہ راجعون۔ 8 مولانا مودودی مرحوم کی وضاحت، خلع عقل و نقل کے مطابق ہے: مولانا مودودی مرحوم نے بھی اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ میں مسئلۂ خلع پر مفصل بحث کی ہے اور حنفی ہونے کے باوجود انھوں نے علمائے احناف کے خلع کے نہ ماننے پر نہ صرف یہ کہ سخت تنقید کی ہے، بلکہ عورت کے اس حقِ خلع کا
Flag Counter