Maktaba Wahhabi

123 - 358
نہیں ہے، بلکہ خود اﷲ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور {اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ} [آل عمران: ۳] روایاتِ رجم میں خُردہ گیری، ہندو اور شیعہ کی خُردہ گیریوں کی طرح ہے: دوسرا نکتہ، جس کی ضروری وضاحت بھی ناگزیر ہے، وہ یہ ہے کہ غامدی صاحب نے رجم کی ان احادیث کو، جو احادیث کے صحیح مجموعوں میں صحیح سندوں کے ساتھ محفوظ ہیں، ان سب کو باہم متناقض اور ناقابلِ اعتبار قرار دے کر کنڈم کر دیا ہے، حالاں کہ یہ وہ روایات ہیں، جو صدیوں سے اہلِ علم میں متداول ہیں۔ کسی کو ان میں ایسا باہم تناقض اور تضاد نظر نہیں آیا جن کی توجیہ یا ان میں تطبیق ناممکن ہو، لیکن جب یہ روایات فراہی صاحب کے خانہ ساز نظریۂ رجم کے خلاف تھیں تو ان سب کو ناقابلِ اعتبار قرار دینا ناگزیر ہوگیا، کیوں کہ اس کے بغیر ان کے بے بنیاد نظریے کا اِثبات یکسر ناممکن تھا۔ چناں چہ اس ’’عظیم خدمت‘‘ کی ’’سعادت‘‘ ع قرعۂ فال بنام من دیوانہ زدند کے مصداق، غامدی صاحب کے حصے میں آئی، جس پر ان کے مریدانِ باصفا کو بجا طور پر صدائے ’’أَحْسَنْتَ‘‘ کے ساتھ ملا کر یہ پڑھنا چاہیے ؎ ایں سعادت بہ زور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ لیکن ہمیں یہ ساری بحث، جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام فرامین اور فیصلوں کو نہایت بے دردی سے دفترِ بے معنی ثابت کرنے کی مذموم سعی کی گئی ہے، پڑھتے ہوئے بار بار ایک ہندو پنڈت کی تحریر کردہ کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ ، ایک سوامی دیانند (ہندو) کی کتاب ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ اور ایک شیعہ مصنف کی تحریر کردہ کتاب ’’سیرتِ عائشہ‘‘ جیسی کتابیں لوحِ حافظہ پر اُبھر اُبھر کر سامنے
Flag Counter