Maktaba Wahhabi

255 - 358
آپ کے پاس سرے سے دلائل تو کجا ایک ’’دلیل‘‘ بھی ایسی نہیں جو چودہ سو سالہ اس اجماعی اور متفق علیہ مسئلے کو بے بنیاد ثابت کر سکے۔ آپ نے پہلے مستند اور قابلِ اعتماد روایات کی وجہ سے نزولِ مسیح کی پیش گوئی کو سچا اور ایمان کا تقاضا قرار دیا، لیکن اس کے بعد محض مفروضوں سے اس سے انکار کی گنجایش نکال رہے ہیں۔ یہ علمی اختلاف ہے یا کفر و الحاد ہے؟ اگر آپ کو میرے الفاظ سخت محسوس ہو رہے ہوں تو راقم معذرت کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن پہلے آپ خود اپنے اکابر کے بارے میں سوچ لیں، جنھوں نے عقیدۂ نزولِ مسیح کے انکار کو ’’کفر و الحاد‘‘ قرار دیا ہے۔ اکابر علماے دیوبند کے فتاوے: یہ اکابر ہیں، علامہ انور شاہ کشمیری، مولانا محمد یوسف بنوری، مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی وغیرہم۔ یہ وہ اکابر ہیں جن کو موجودہ اکابر دیوبند بھی اپنا اکابر مانتے ہیں اور ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں عمار صاحب کے ’’محققین‘‘ میں سرفہرست تو مرزا غلام احمد قادیانی ہے، جس نے برصغیر پاک و ہند (متحدہ ہندوستان) میں سب سے پہلے عقیدۂ نزولِ مسیح کا اس لیے انکار کیا کہ وہ خود ’’مسیح موعود‘‘ کے منصب پر براجمان ہو سکے۔ اس کے بعد اس ’’تحقیق‘‘ کو (فراہی گروہ سمیت) تمام منکرینِ حدیث نے اپنا لیا، لیکن مذکورہ اکابر تو وہ ’’محققین‘‘ ہیں، جن کی عظمت اور تحقیق میں اہلِ دیوبند میں دو رائیں نہیں۔ علامہ انور شاہ کشمیری مرحوم نے اس مسئلے میں دو کتابیں عربی زبان میں لکھی ہیں۔ ایک کا نام ہے: ’’التصریح بما تواتر في نزول المسیح‘‘ اس میں انھوں نے سوا سو کے قریب احادث و آثار جمع کیے ہیں، کیا اتنی بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود یہ روایات متواتر نہیں، خبرِ واحد ہی ہے؟
Flag Counter