Maktaba Wahhabi

106 - 358
پرویزی کہتے ہیں: ’’زکات کے معنی نشوو نما کے ہیں۔ لہٰذا ’’ایتائے زکات‘‘ کے معنی ہوں گے: سامانِ نشو و نما مہیا کرنا اور یہ اسلامی حکومت کا فریضہ ہے کہ وہ افرادِ معاشرہ کی نشو و نما کا سامان فراہم کرے۔‘‘[1] لیجیے! اس ’’قرآنی‘‘ مفہوم یا ’’نصوصِ قرآنی‘‘ سے تمام مسلمان زکات ادا کرنے سے فارغ ہو گئے۔ رجم کی ’’فراہی تحقیق‘‘ کی طرح زکات کی کیا خوب ’’تحقیق‘‘ ہے!! اگر پرویزی بھی غامدی صاحب والی ’’قرآنی نصوص‘‘ پر مبنی رجم کی بحث پڑھ لیں اور وہ بھی دعویٰ کر دیں کہ ہماری زکات والی تحقیق ’’نصوصِ قرآنی‘‘ {وَاٰتُوا الزَّکَٰوۃَ} پر مبنی ہے تو کیا وہ اپنے اس دعوے میں سچے ہوں گے اور علم و تحقیق کی دنیا میں اس دعوے کی پر ِکاہ کے برابر بھی حیثیت ہوگی؟ غامدی گروہ جواب دے! ’’اقامتِ صلاۃ‘‘ کا پرویزی مفہوم: ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیں۔ غلام احمد پرویز لکھتا ہے: ’’قرآن مجید کی ایک خاص اصطلاح ’’اِقامتِ صلوٰۃ‘‘ ہے، جس کے عام معنی نماز قائم کرنا یا نماز پڑھنا کیے جاتے ہیں۔ لفظ صلوۃ کا مادہ ’’ص، ل، و‘‘ ہیں، جس کے بنیادی معنی کسی کے پیچھے چلنے کے ہیں۔ اس لیے صلوٰۃ میں ’’قوانینِ خداوندی‘‘ کے اتباع کا مفہوم شامل ہوگا۔ ’’بنا بریں اقامتِ صلوٰۃ سے مفہوم ہوگا ایسے نظام یا معاشرے کا
Flag Counter