Maktaba Wahhabi

30 - 358
(دائمی اعمال) قابلِ عمل ہیں، اسے وہ سنت کہتے ہیں۔ اور ایک چوتھا گروہ ہے، اس نے کہا: سنت دینِ ابراہیمی کی وہ روایت ہے، جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ گویا سنت و حدیث ان مذہبی مسخروں اور بہروپیوں کے نزدیک کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ بازیچۂ اطفال ہے یا موم کی ناک ہے، جسے جس طرح چاہو استعمال کر لو اور جس طرف چاہو موڑ لو۔ لیکن یہ سب باتیں صحیح نہیں۔ یہ چاروں گروہ دراصل بہ لطائف الحیل احادیث سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ائمۂ سلف اور محدثین نے سنت اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے، وہ سنت اور حدیث دونوں کو مترادف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنت سے صرف عادات و اطوار مراد لے کر ان کی شرعی حجیت سے انکار بھی غلط ہے اور انکارِ حدیث کا ایک چور دروازہ۔ یا صرف اعمالِ مستمرہ کو قابلِ عمل کہنا یا دین کو صرف دینِ ابراہیمی کی موہومہ یا مزعومہ روایت تک محدود کر دینا، احادیث کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا انکار ہے اور منکرینِ حدیث کی بہ اندازِ دگر ہمنوائی۔ اُمتِ مسلمہ میں حدیث کی تشریعی حیثیت مسلّم ہے: بہرحال حدیث اور سنت، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کو کہا جاتا ہے اور یہ بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ، شریعت کا مصدر اور مستقل بالذات قابلِ استناد ہے۔ چناں چہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اعلم أنہ قد اتفق من یعتد بہ من أھل العلم علیٰ أن السنۃ المطھرۃ مستقلّۃ بتشریع الأحکام وأنھا کالقرآن
Flag Counter