Maktaba Wahhabi

214 - 358
پھر یہ طرفہ تماشا بھی خوب ہے کہ حدیث ظنی ہے، جس کا مطلب آپ کے نزدیک، محدثین کے مفہوم کے برعکس، مشکوک ہونا ہے، لیکن آپ کی اور آپ کے ائمۂ ثلاثہ اور آپ سمیت ائمۂ اربعہ کی اٹکل بچو باتیں اور مفروضات وحیِ الٰہی کی طرح یقینی ہیں، جن کی بنیاد پر چودہ سو سال کے تمام ائمہ و فقہا اور محدثین کے اس موقف کو جھٹلایا جا رہا ہے جس کی بنیاد مستند احادیث سے حاصل ہونے والے یقینی علم پر ہے، فیا للعجب!! ایک اور سوال: پھر عمار صاحب سے یہ بھی سوال ہے کہ سنتِ ثابتہ، شریعت کا مقرر کردہ حکم، امرِ منصوص ہے یا اجتہادی امر؟ اگر یہ اجتہادی معاملہ ہے اور آپ اس میں اجتہاد فرما رہے ہیں تو پھر یہ امرِ منصوص تو نہ رہا اور ایک اجتہادی معاملے کو نہ سنتِ رسول کہا جاتا ہے اور نہ شریعت کا مقرر کردہ حکم، جب کہ آپ خود اسے سنتِ ثابتہ بھی مان رہے ہیں اور شریعت کا مقرر کردہ حکم بھی اور اگر یہ امرِ منصوص ہے تو پھر آپ کو یا آپ کے ائمہ کو یا کسی بھی اور شخص کو اجتہاد کا حق حاصل ہے؟ نہیں ہے، یقینا نہیں ہے۔ پھر آپ کو رجم کی سنتِ ثابتہ اور شریعت کی مقرر کردہ مستقل سزا میں اجتہاد کر کے اس کو صواب دیدی سزا میں منتقل کرنے کا حق کس طرح حاصل ہوگیا ہے؟ اور اجتہاد بھی نہایت انوکھا اور دنیائے اجتہاد میں نرالا کہ اس سزا کو یوں سمجھ لیا جائے یا ووں سمجھ لیا جائے۔ گویا حدِ رجم کے شرعی حکم کی حیثیت، جو چودہ سو سال سے اُمتِ مسلمہ میں مسلّم چلی آرہی ہے، ابھی تک فراہی گروہ کے نزدیک غیر متعین ہے اور اب اس کے تعین کی کھکھیڑ اس گروہ کے سر آپڑی ہے، جس کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصے سے یہ گروہ مغز ماری کر رہا ہے، لیکن ان کی مغز ماری سے ان کا اپنا ہی ایک لائق ترین شاگرد بھی
Flag Counter