Maktaba Wahhabi

156 - 358
’’جو ہلاکت کو پسند کرے تو دلیل واضح کے بعد ایسا کرے اور جو زندہ رہے، وہ دلیل واضح پر زندہ رہے۔‘‘ مسئلہ شہادتِ نسواں میں اِدّعاء ات اور مسلّمات کا انکار: اس مضمون کی تکمیل کے بعد ہمیں خیال آیا کہ آج سے ۲۳ سال قبل ۱۹۸۹ء میں وفاقی شرعی عدالت میں مسئلہ شہادتِ نسواں پر بحث چلی تھی جس میں راقم نے بھی ایک مفصل مقالہ پیش کر کے حصہ لیا تھا، اس وقت عدالت کے چیف جسٹس گل محمد پرویزی ذہن کے حامل تھے۔ اس لیے انھوں نے غامدی صاحب کو بھی بلا کر ان سے ان کا موقف سنا تھا۔ راقم کو چیف جسٹس نے پابند کیا تھا کہ وہ ان کی بحث کو مکمل سنے۔ چناں چہ راقم نے اپنا بیان پیش کرنے کے بعد غامدی صاحب کے پیش کردہ دلائل بھی اپنے کانوں سے سنے۔ راقم کا خیال تھا کہ شاید چیف صاحب بعد میں راقم کو غامدی دلائل کا تجزیہ و محاکمہ پیش کرنے کا موقع دیں گے۔ لیکن جب یہ مرحلہ آیا اور راقم نے اس امر کی کوشش کی تو چیف صاحب نے فرمایا: آپ دونوں اخبار (اِشراق، الاعتصام) کے ایڈیٹر ہیں، وہاں اس مباحثے کو جاری رکھیں۔ عدالتی فورم اس کے لیے موزوں نہیں ہے۔ بہر حال مسئلہ شہادتِ نسواں میں بھی اپنے عدالتی بیان میں غامدی صاحب نے مسلّماتِ اسلامیہ کا انکار کرنے میں جس طرح کا ادعائی انداز اور تنہا روی کا مظاہرہ کیا، وہ دیدنی ہے۔ راقم نے ان کے دلائل کا یہ تجزیہ تحریری طور پر، اصل مقالے کے علاوہ، عدالت میں پیش کر دیا تھا اور ماہنامہ ’’محدث‘‘ لاہور میں بھی شائع ہوا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی نذرِ قارئین کر دیا جائے۔
Flag Counter