Maktaba Wahhabi

94 - 358
نقد و تحقیق کا کام ہر وقت کیا جا سکتا ہے اور یہ کام اب تک جاری بھی ہے۔ چناں چہ انہی اصولوں کی روشنی میں سننِ اربعہ (ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور ترمذی) کی روایات کی چھان پھٹک اسی دور میں ہوئی۔ مسند احمد اور الجامع الصغیر اور دیگر کئی کتب کو چھانا اور پھٹکا گیا ہے اور صحیح و ضعیف کو الگ الگ کر دیا گیا ہے۔ پانچویں بات یہ ہے کہ اہلِ اسلام حدیث کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہیں، بلکہ نقد و تحقیقِ حدیث کے محدثانہ اصول و ضوابط کی روشنی میں جو احادیث پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہیں، ان کو تسلیم اور جو اُن کے معیارِ صحت پر پوری نہیں اُترتی، ان کو رد کر دیتے ہیں۔ چھٹی بات یہ کہ اہلِ اسلام احادیث کے اس ذخیرے کو مجموعۂ رطب و یابس قرار دے کر یہ نہیں کہتے: ایں دفتر بے معنی غرقِ مئے ناب اولیٰ۔ بلکہ اس کی غواصی کر کے اس سے لولؤ و لالہ نکالنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں اور یہ غواصی الل ٹپ نہیں ہوتی، بلکہ انہی بے مثال اصولوں کی روشنی میں ہوتی ہے، جو محدثین نے وضع اور مرتب کیے ہیں۔ رحمھم اللّٰه وشکر مساعیھم۔ خود ساختہ نظریۂ رجم کی بے ثباتی اور شریعت سازوں کی بے چارگی: غامدی صاحب کے اندازِ تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا رویہ منکرینِ حدیث کے رویے سے مختلف نہیں۔ انھوں نے شراب نوشی کے بارے میں یہ نظریہ گھڑا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے، بلکہ اس میں تعزیر ہے۔ اس کے لیے انھوں نے صحیح حدیثیں نظر انداز کر دیں اور سیدنا علی کی طرف منسوب بے بنیاد قول کو مدارِ استدلال بنا لیا، جس کا ترجمہ خود انھوں نے کیا ہے: ’’چناں چہ بیان کیا جاتا ہے‘‘ اس کے عربی الفاظ ہیں: ’’کما قیل عنہ‘‘۔ اور ’’قِیْلَ‘‘ کے ساتھ جو بیان کیا جاتاہے، اس کی حیثیت خود غامدی صاحب
Flag Counter