Maktaba Wahhabi

295 - 358
کی حدیث ہے، آثارِ صحابہ اور خلفائے راشدین کے فیصلے اور صحابہ کا اجماع ہے۔ پھر اُمتِ مسلمہ کے علما و فقہا کا بھی اتفاق ہے۔ نصف دیت کی حکمت و مصلحت: جہاں تک انسانی شرف و تکریم کا معاملہ ہے، اسلام میں مرد و عورت کے درمیان کو ئی تفریق نہیں ہے۔ اسلام ہی وہ پہلا مذہب ہے، جس نے انسانی معاشرے میں عورت کی عزت اور اس کے مقام و منصب کا تحفظ اور اس کی قدر و منزلت کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ واقعہ بھی ہے کہ اسلام اس مساواتِ مرد و زن کا قائل نہیں ہے، جو اس وقت مغرب میں عام ہے۔ اسی لیے تکریمِ انسانیت کا مفہوم دونوں جگہ یکساں نہیں ہے۔ مغرب کے نزدیک جو چیز بھی عین تکریمِ نسوانیت ہے، اسلام کے نزدیک وہ عین تذلیل ِنسوانیت ہے۔ اسی طرح اسلام میں تکریمِ نسوانیت کے لیے، جو جو حدود و ضوابط تجویز کیے گئے ہیں، ہو سکتا ہے وہ مغرب کے نزدیک استخفافِ نسوانیت کا باعث ہوں۔ مثلاً: اسلام میں عورت کے لیے پردہ انتہائی ضروری ہے، مرد و زن کے بے محابا اختلاط کی اسلام میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ مغربی ذہن اسلام کی اس ہدایت پر ناک بھوں چڑھاتا ہے اور اسے (نعوذ باللّٰه ) عورت کی تذلیل قرار دیتا ہے، لیکن اسلام کی نظر میں یہ عورت کی تذلیل نہیں، اس کی یہ عین عزت ہے اور بے پردگی میں، جسے مغربی ذہن عورت کی عزت قرار دیتا ہے، عورت کی تذلیل و تحقیر ہے۔ اسی طرح اسلام نے مرد و عورت کی، ایک دوسرے سے مختلف، فطری صلاحیتوں کی بنا پر دونوں کا دائرہ کار بھی ایک دوسرے سے مختلف رکھا ہے۔ مرد کو معاشی ذمے داریوں کا کفیل بنایا ہے اور عورت کو اس معاشی کفالت سے آزاد رکھا ہے۔ یہ صرف مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ گھر سے باہر محنت مزدوری کرے،
Flag Counter