Maktaba Wahhabi

220 - 358
اور اﷲ تعالیٰ نے یہ ’’حوصلہ‘‘ فراہی گروہ کو وافر مقدار میں عطا فرمایا ہے۔ ع یہ ’’نصیب‘‘ اﷲ اکبر لوٹنے کی جائے ہے محلِ اعتراض، اصل اقتباس: اس کے بعد عمار صاحب نے اپنی کتاب ’’براہین‘‘ (ص: ۱۶۰۔ ۱۶۲) سے وہ اصل اقتباس نقل کیا ہے، جس سے ان کا مقصد صحابہ پر طعن و تشنیع کے الزام کی نفی ہے، لیکن اس اقتباس سے اس الزام کا بے حقیقت ہونا واضح ہوتا ہے، یا اس کا اثبات ہوتا ہے؟ لیجیے! آپ اصل اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور پھر فیصلہ فرمائیں کہ معترضین کا الزام صحیح ہے یا وہ اس سے پاک ہیں؟ عمار صاحب کا یہ اقتباس حسبِ ذیل ہے: ’’سورت نساء کی آیات (۱۵، ۱۶) میں {وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ} اور {وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا} کا مصداق کون سے زانی ہیں اور پہلی آیت میں خواتین کو الگ ذکر کر کے ان کی سزا الگ بیان کرنے کی وجہ کیا ہے؟ ... ہم نے آیات کے داخلی قرائن کی روشنی میں اس رائے کو ترجیح دی ہے کہ یہاں زنا کا اتفاقیہ ارتکاب کرنے والے عام مجرم نہیں، بلکہ اس کو پیشہ اور عادت کے طور پر اختیار کرنے والے مجرم زیرِ بحث ہیں اور قرآن نے پہلی آیت میں پیشہ ور بدکار عورتوں کی سرگرمیوں کی روک تھام کی تدبیر بیان کی، جب کہ دوسری آیت میں یاری آشنائی کا مستقل تعلق قائم کر لینے والے جوڑوں کی تادیب و تنبیہ کا طریقہ بیان فرمایا ہے۔‘‘ جن صاحب نے عمار صاحب کے اس اقتباس سے صحابہ کی توہین کا مفہوم اَخذ کیا ہے، وہ عمار صاحب کے الفاظ میں حسبِ ذیل ہے:
Flag Counter