Maktaba Wahhabi

26 - 358
مسلّمہ اصطلاحات کے مفہوم میں تبدیلی، ان کا انکار ہے: ثانیاً: جو شرعی اصطلاحیں ہیں، وہ آج کی بنی ہوئی نہیں ہیں، بلکہ وہ خود صاحبِ شریعت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ رسالت سے، جو وحیِ الٰہی کی مظہر ہے، نکلی ہوئی ہیں اور اُن کا مفہوم و مطلب بھی عہدِ رسالت سے اب تک معروف و مسلّم چلا آرہا ہے، جیسے: صلاۃ، زکاۃ اور ختمِ نبوت وغیرہ کا مفہوم و مطلب ہے۔ آج اگر کوئی شخص یہ کہے کہ صلاۃ کا وہ مفہوم نہیں ہے، جو آج تک مسلمان سمجھتے اور اس کے مطابق عمل کرتے آرہے ہیں اور وہ غلط ہے، بلکہ صلاۃ کا مطلب پانچ وقت کی نمازیں نہیں ہے، بلکہ یہ ہے۔ اسی طرح زکات کا مطلب بھی یہ نہیں ہے، جو چودہ سو سال سے مسلّم چلا آرہا ہے، بلکہ اس کا مطلب تو حکومت کا اپنی رعایا کی معاشی ضروریات کا پورا کرنا ہے۔ یاد رہے یہ مفروضے نہیں، بلکہ غلام احمد پرویز اور اُن کی فکر کے وارث یہی کچھ کہتے ہیں، جو عرض کیا گیا ہے۔ اسی طرح ختمِ نبوت کی اصطلاح ہے، مرزائی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی مہر کے بغیر کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزا صاحب پر آپ کی مہر لگی ہوئی ہے، اس لیے مرزائے قادیان بھی (نعوذ باﷲ) سچا نبی ہے۔ ذرا سوچیے کہ ان مذکورہ شرعی اصطلاحات کی نئی تعبیر کرنے والے کیا صلاۃ، زکاۃ اور ختمِ نبوت کے ماننے والے کہلائیں گے یا ان کے منکر؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی باشعور مسلمان ایسے لوگوں کو ان مسلماتِ اسلامیہ کا ماننے والا نہیں کہے گا، بلکہ یہی کہے گا کہ یہ نماز کے بھی منکر ہیں، زکاۃ کے بھی منکر ہیں اور ختمِ نبوت کے بھی منکر ہیں۔ وعلی ھذا القیاس، دوسرے گمراہ فرقوں کی اپنی وضع کردہ اصطلاحات ہیں، جیسے: شیعوں کا عقیدۂ امامت ہے، صوفیوں کا عقیدۂ ولایت
Flag Counter