Maktaba Wahhabi

336 - 358
علمائے احناف کا حقِ خلع کا انکار البتہ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا واقعی علمائے احناف عورت کے اس حقِ خلع کو تسلیم نہیں کرتے جو شریعت نے عورت کو مرد کے حقِ طلاق کے مقابلے میں دیا ہے اور جو قرآن و حدیث کی نصوصِ صریحہ سے ثابت ہے؟ ہماری طرف سے اس کا جواب اثبات میں ہے اور الحمدﷲ ہمارا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں ہے، اس کے واضح دلائل موجود ہیں اور وہ علمائے احناف کے اعترافات ہیں۔ 1۔ عمار ناصر کا رویہ، خلع کا انکار: اس کی ایک واضح دلیل خود عمار صاحب کا موقف ہے کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ عورت بھی خاوند کے رویے سے مشکلات کا شکار ہوسکتی ہے۔ اس لیے اس کے لیے بھی مرد سے گلو خلاصی کا کوئی راستہ ہونا چاہیے۔ پھر اس کے لیے وہ دوسرے علمائے احناف کی طرح تفویضِ طلاق کا راستہ تجویز کرتے ہیں، حالانکہ اسلام نے عورت کے لیے متبادل راستہ چودہ سو سال پہلے سے بتلایا ہوا ہے۔ عزیز موصوف اس کا نام نہیں لیتے اور اپنی طرف سے نیا راستہ یا نیا حل اس طرح سے پیش کر رہے ہیں، جیسے اسلام نے عورتوں کو اس کا یہ حق نہیں دیا ہے، اب یہ حل چودہ سو سال بعد انھیں تلاش کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا یہ حقِ خلع کا انکار نہیں ہے؟ اور اﷲ کے بتلائے ہوئے حق کے مقابلے میں یہ نئی شریعت سازی نہیں ہے؟
Flag Counter